Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2012

Surai jaam se takraye barsat ke din hain

صُراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں حدیثِ زندگی دُہرائیے برسات کے دن ہیں سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم ذرا ملّاح کو سمجھائیے برسات کے دن ہیں کِسی پُر نُور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو کہیں سے مہ و شوق کو لائیے برسات کے دن ہیں طبعیت گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے پریشاں زُلف کو سُلجھائیے برسات کے دن ہیں بہاریں ان دِنوں دشتِ بیاباں میں بھی آتی ہیں فقیروں پر کرم فرمائیے برسات کے دن ہیں یہ موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے دلِ نادان کو بہلائیے برسات کے دن ہیں سُہانے آنچلوں کے ساز پر اَشعار ساغرؔکے کِسی بے چین دُھن میں گائیے برسات کے دن ہیں

Subha ki pehli kiran se ashna hota hua

صبح کی پہلی دعا سے آشنا ہوتا ہوا ایک سنّاٹا ہے مانوس ِصدا ہوتا ہوا جاتے موسم کی عجب تصویر ہے چاروں طرف درمیاں اس کے ہے ایک پتہ ہرا ہوتا ہوا اتنی آگاہی تو ہے میں بڑھ رہا ہوں کس طرف یہ نہیں معلوم کس سے ہوں جدا ہوتا ہوا ایک نوا آہستہ آہستہ فنا ہوتی ہوئی ایک حرفِ سد طلب چپ چاپ ادا ہوتا ہوا بڑھ رہا ہے کون اپنا رستہ لیتے ہوئے اپنے ہمراہوں سے چپکے سے خفا ہوتا ہوا

Maa

Maa ki dua

Hogaye jawan buchay buri hogai hay Maa

ہو گئے جواں بچے، بوڑھی ہو رہی ہے ماں بے چراغ آنکھوں میں خواب بو رہی ہے ماں روٹی اپنے حصّے کی دے کے اپنے بچوں کو صبر کی ردا اوڑھے،بھوکی سو رہی ہے ماں سانس کی مریضہ ہے پھر بھی ٹھنڈے پانی سے کتنی سخت سردی میں کپڑے دھو رہی ہے ماں غیر کی شکایت پر، پھر کسی شرارت پر مار کر مجھے، خود بھی رو رہی ہے ماں

khwaab poch ankhon main

خواب پوش آنکھوں میں آنسوؤں کا بھر جانا حسرتوں*کے ساحل پر تِتلیوں* کا مر جانا حبس کی ہواؤں* میں خوشبوؤں* کا ڈر جانا دل کے گرم صحرا میں حشر ہی بپا ہونا درد لا دوا ہونا کیا بہت ضروری ھے؟ اب تیرا جدا ہونا

Khalwat main kula hum pe ke bebak te wo bhi

خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور پندار میں "ہم قامتِ افلاک" تھی وہ بھی اسے پاس ِادب، سنگِ صفت عزم تھا اس کا اسے سیل طلب، صورتِ خاشاک تھی وہ بھی جس شب کا گریباں تیرے ہاتھوں سے ہوا چاک اے صبح کے سورج، میری پوشاک تھی وہ بھی اک شوخ کرن چومنے اتری تھی گلوں کو کچھ دیر میں پیوستِ رگِ خاک تھی وہ بھی جس آنکھ کی جنبش پہ ہوئیں نصب صلیبیں مقتل میں ہمیں دیکھ کے نمناک تھی وہ بھی دیکھا جو اسے، کوئی کشش ہی نہ تھی اس میں سوچا جو اسے، حاصل اور ادراک تھی وہ بھی جو حرف میرے لب پہ رہا زہر تھا محسن جو سانس میرے تن میں تھی سفّاک تھی وہ بھی محسن نقوی

Bechry hoye yaron ki sada keaue nhi aye

بچھڑے ہوے یاروں کی صدا کیوں نہی آتی ؟ اب روزن زنداں سے ہوا کیوں نہی آتی ...؟ تو اب بھی سلامت ہے سفر میں تو مسافر تیرے لئے ہونٹوں پہ صدا کیوں نہی آتی؟ پتھر ہو تو کیوں خوف شب غم سے ہو لرزاں انساں ہو تو جینے کی ادا کن نہی آتی؟ اک پیڑ کے ساے سے ہوا پوچھہ رہی تھی اب دشت میں مخلوق خدا کیوں نہی آتی ؟ اے موسم خوشبو کی طرح روٹھنے والے پیغام تیرا لے کے ہوا کیوں نہی آتی .....؟ چہروں پہ وہ سرسوں کی دھنک کیا ہوئی یارو ہاتھوں سے وہ خشبوے حنا کیوں نہی آتی ؟ بستی کے سبھی لوگ سلامت ہیں تو محسن آواز کوئی اپنے سوا کیوں نہی آتی.........؟

Sirf alfaz ki had tak na sarahy koi

صرف الفاظ کی حد تک نہ سراہے کوئی ہے یہ حسرت کہ مجھے ٹُوٹ کے چاہے کوئی جسے ہنسنے کا سیلقہ ہے نہ رونے کا شعور ایسے ناداں سے بھلا کیسے نبھائے کوئی ضبط کرنے کا بھی ہے مشورہ اچھا لیکن روح گھائل ہو تو کیسے نہ کراہے کوئی ایک ٹُوٹی ہوئی تصویرِ انا ہوں میں مجھ سے ناراض رہا کرتا ہے کاہے کوئی

ye chahaty ye pazerian bhi jhoti han

یہ چاہتیں یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں مرے جُنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی ترے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں کُھلی جوآنکھ تو دیکھا کہ شہرِفُرقت میں تری مہک تری پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں فریب کار ہیں اِظہار کے سب وسیلے بھی خیال و فکر کی گہرائیاں بھی جھوٹی ہیں تمام لفظ و معانی بھی جھوٹ ہیں ساجد ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں۔

Qarya e jan main koi phool kilany aye

قریہِ جاں میں کوئی پُھول کِھلانے آئے وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے میرے ویران دریچوں میں بھی خُوشبو جاگے وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے اسی کُوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

Ja taras aa he gaya hashr main lachar mujay

جا ترس آ ہی گیا حشر میں لاچار مجھے تو بھی کیا یاد کرے گا بتِ عیار مجھے دھوپ جب سر سے گذرتی ہے بیابانوں کی یاد آتا ہے تیرا سایۂ دیوار مجھے شکوہ جو غلط ہے تو چلو یوں ہی سہی حشر کا دن ہے بڑھانی نہیں تکرار مجھے دردِ دل رسمِ محبت ہے تجھے کیا معلوم چارہ گر تو نے سمجھ رکھا ہے بیمار مجھے ہچکی آ آ کے کسی وقت نکل جائے گا دم آپ کیوں یاد کیا کرتے ہیں ہر بار مجھے اے قمر رات کی رونق بھی گئی ساتھ ان کے تارے ہونے لگے معلوم گِراں بار مجھے

Kya bataye fasl e be khwabi yahan hota hay kon

کیا بتائیں فصل ِبے خوابی یہاں بوتا ہے کون جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر سوتا ہے کون تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے پھر پس ِدیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون بس تیری بے چارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون کون یہ پاتال سے لے کر ابھرتا ہے مجھے اتنی تہہ داری سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے کون کوئی بے ترتیبیٔ ِکردار کی حد ہے سلیم داستاں کس کی ہے، زیبِ داستاں ہوتا ہے کون

Naam sunta hun tera jub bhari sansar ke beach

نام سنتا ہوں ترا جب بھرے سنسار کے بیچ لفظ رُک جاتے ہیں آکر مری گفتار کے بیچ دل کی باتوں میں نہ آ یار کہ اس بستی میں روز دل والے چُنے جاتے ہیں دیوار کے بیچ ایک ہی چہرہ کتابی نظر آتا ہے ہمیں کبھی اشعار کے باہر کبھی اشعار کے بیچ ایک دل ٹوٹا مگر کتنی نقابیں پلٹیں جیت کے پہلو نکل آئے کئی، ہار کے بیچ کوئی محفل ہو نظر اس کی ہمیں پر ٹھہری کبھی اپنوں میں ستایا تو کبھی اغیار کے بیچ ایسے زاہد کی قیادت میاں توبہ توبہ کبھی ایمان کی باتیں، کبھی کفار کے بیچ کبھی تہذیب و تمدّن کا یہ مرکز تھا میاں تم کو بستی جو نظر آتی ہے آثار کے بیچ جس طرح ٹاٹ کا پیوند ہو مخمل میں عدیل مغربی چال چلن مشرقی اقدار کے بیچ

Rahe han Qaib esi khana e siyah main hum

رہے ہیں قید اسی خانہ سیاہ میں ہم بہت خراب ہوئے روشنی کی چاہ میں ہم بجھے بجھے نظر آئیں تو اس پہ حیرت کیوں بہت جلے ہیں کسی شعلہ نگاہ میں ہم انا کی دھوپ بدن کو جلائے دیتی تھی سو آگئے تری دیوار کی پناہ میں ہم بدل گئیں وہ نگاہیں تو یاد آیا ہے کسی کو بھول گئے تھے کسی کی چاہ میں ہم یہ گرد گرد فضا راس ہی نہیں آئی سو معتبر نہ ہوئے شہر کم نگاہ میں ہم ستارہِ شب غم کو گواہ کرتے ہوئے غروب ہوگئے آخت گل و گیاہ میں ہم

Ay dil walo ghar se neklo,daita dawat e aam hy chand

اے دل والو گھر سے نکلو، دیتا دعوتِ عام ہے چاند شہروں شہروں، قریوں قریوں وحشت کا پیغام ہے چاند تو بھی ہرے دریچے والی، آ جا بر سر ِبام ہے چاند ہر کوئی جگ میں خود سا ڈھونڈے، تجھ بن بسے آرام ہے چاند سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں ہم سے نہیں تو اس سے کہہ دے، کرتا کہاں کلام ہے چاند جس جس سے اسے ربط رہا ہے اور بھی لوگ ہزاروں ہیں ایک تجھ ہی کو بے مہری کا دیتا کیوں الزام ہے چاند وہ جو تیرا داغ ِغلامی ماتھے پر لئے پھرتا ہے اس کا نام تو انشا ٹھہرا، ناحق کو بدنام ہے چاند ہم سے بھی دو باتیں کر لے کیسی بھیگی شام ہے چاند سب کچھ سن لے آپ نہ بولے، تیرا خوب نظام ہے چاند ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں دیکھ کسی دن آ مل ہم سے، ہم کو تجھ سے کام ہے چاند اپنے تو دل کے مشرق و مغرب اس کے رخ سے منوّر ہیں بے شک تیرا روپ بھی کامل، بے شک تو بھی تمام ہے چاند تجھ کو تو ہر شام فلک پر گھٹتا بھڑتا دیکھتے ہیں اس کو دیکھ کے عید کریں گے، اپنا اور اسلام ہے چاند ابن ِانشا

Manzilain bhi ye shakista bal o par bhi dekna

منزلیں بھی، یہ شکستہ بال و پر بھی دیکھنا تم، سفر بھی دیکھنا، رختِ سفر بھی دیکھنا حال ِدل تو کُھل چکا اس شہر میں ہر شخص پر ہاں مگر اس شہر میں اک بے خبر بھی دیکھنا راستہ دیں یہ سُلگتی بستیاں تو ایک دیں قریۂِ جاں میں اترنا، یہ نگر بھی دیکھنا چند لمحوں کی شناسائی مگر اب عمر بھر تم شرر بھی دیکھنا، رقص ِشرر بھی دیکھنا جس کی خاطر میں بُھلا بیٹھا تھا اپنے آپ کو اب اسی کے بھول جانے کا ہُنر بھی دیکھنا یہ تو آدابِ محبّت کے منافی ہے عطا روزن ِدیوار سے بیرون ِدر بھی دیکھنا عطا الحق قاسمی

ay dil e beqarar chup hoja

اے دلِ بے قرار، چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار ! چپ ہو جا جا چکا ہے کارواں لالہ و گل اُڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا ہم فقیروں کا اس زمانے میں کون ہے غمگسار چپ ہو جا حادثوں کی نہ آنکھ لگ جائے حسرتِ سوگوار !چپ ہو جا گیت کی ضرب سے بھی اے ساغر ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا ساغر صدیقی

Mushkilon se usy sambala hay

مشکلوں سے اِسے سمبھالا ہے اِک تیرا غم جو ہم نے پالا ہے عہد و پیمان توڑ کر سارے مُجھ کو اُلجھن میں تُو نے ڈالا ہے مِل گئیں تلخیاں زمانے کی فِکرِ دُنیا نے روند ڈالا ہے زندگی کھو گئی اندھیروں میں کوں جانے کہاں اُجالا ہے سب سے ملتا ہے مُسکُرا کر تُو تیرا انداز ہی نرالا ہے ہونٹ میں نے تو سی لیے ناصر راز اپنوں نے ہی اُچھالا ہے

Chalo mana ke hum to ajnabi han

چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں مگر یہ بھی تو سوچو اجنبی کو دوست ہونے میں بھلا کیا دیر لگتی ہے چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں مگر سوچو اگر ہم زندگی کے کھیل کے کردار ہیں دونوں تو ہم کو سامنے آنے پہ آخر کچھ تو کہنا ہے کوئی دو لفظ ، دو جملے مگر تم نے تو آنکھیں بند کر لی ہیںلبوں کو سی لیا شاید چلو مانا کہ ہم تم اجنبی ہیں مگر جب شہر اپنی آخری حدیں مٹا ڈالے تو انسانوں کا اک جنگل جنم لیتا ہے ایسے میں اور اس جنگل کے آپس میں الجھتے راستوں پر کئی انسان پھرتے ہیں جو اتنی بھیڑ میں رہ کر بھی تنہاء ہیں اور اُن کے پاس اتنا وقت بھی باقی نہیں بچتا کہ اپنی روح کی سچی طلب پہچان لیں وہ لوگ چلو مانو کہ تم بھی ایسے ہی جنگل کے باسی ہو اور اپنی روح کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو جو اپنی روح کی سچی طلب پہچان جاؤ تو مجھے پہچان جاؤ گے یقیناً مان جاؤ گے کہ آخر اجنبی کو دوست ہونے میں بھلا کیا دیر لگتی ہے

Gulabon se mehki lari hogaye hon

گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں محبّت کی پہلی کڑی ہو گئی ہوں مجھے تُو نے ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ میں ایک پل میں بڑی ہو گئی ہوں سر ِشام آنے کا ہے اس کا وعدہ میں صبح سے در پر کھڑی ہو گئی ہوں نہ چُھڑوا سکو گے کبھی ہاتھ اپنا محبّت بھری ہتھکڑی ہو گئی ہوں بہت دور ہے مجھ سے خوشیوں کا موسم مُسلسل غموں کی جھڑی ہو گئی ہوں جُدا کر نہ پائے گا اب کوئی ماہ رُخ وہ خوشبو ہے میں پنکھڑی ہو گئی ہوں

Rishton ke dhoop chaon se azad hogaye

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندھ بھی خوب ہے جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے راحت اندوری

Sar e rah un se hath jo milaya ta

سرراہ اُن سے ہاتھ جو ملایا تھا وفا بھی شرط تھی یہ کہاں بتایا تھا ہو کیسے علم اُسے لذت جنوں جس نے ہنسی مذاق کیا دل نہیں لگایا تھا جو چھوڑنا تھا تو آس کیوں جگائی تھی میں سنگ میل تھا کیوں ہمسفر بنایا تھا یہ کیا خبر تھی کہ ساحل پہ جان جائے گی جسے مسافر بھنور سے بچا کے لایا تھا تمہارے بعد میں جیسے کوئی تماشا تھا کہ سارا شہر مجھے دیکھنے کو آیا تھا وہ برہمن تھا مجھے بولا کٹا دو ہاتھ اپنے یا یہ کہو کہ مجھے ہاتھ کیوں دکھایا تھا میں دل کے زخم گنوں یا گنوں کرم تیرے سفر تھا رات کا ساتھی نہ کوئی سایہ تھا میں اُس سے گھر نہ لٹاتا تو اور کیا کرتا غنیم اب کے مسیحا جو بن کے آیا تھا

Buht sajaye te ankhon main khwaab main ne bhi

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی سہے ہیں اس کے لئے یہ عذاب میں نے بھی جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی دیئے بجھا کے سر ِشام سو گیا تھا وہ بتائی سو کے شبِ ماہتاب میں نے بھی یہی نہیں کہ مجھے اس نے دردِ ہجر دیا جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی کسی نے خون تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں لکھی ہے خون ِجگر سے کتاب میں نے بھی خزاں کا وار بہت کارگر تھا دل پہ مگر بہت بچا کے رکھا، یہ گلاب میں نے بھی اعتبار ساجد

Jub bhi kisi shajar se samar toot kr gera

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا لوگوں کا اک ہجوم اِدھر ٹوٹ کر گرا ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا جیسے میری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا اتنی داستان ہے میرے زوال کی میں اڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید بانہوں میں آ کے وقتِ سحر ٹوٹ کر گرا

Hum ko sauda ta sir ke man main te

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے ہے ندامت لہو نہ رویا دل زخم دل کے کسی چٹان میں تھے میرے کتنے ہی نام اور ہمنام میرے اور میرے درمیان میں تھے میرا خود پر سے اعتماد اٹھا کتنے وعدے میری اٹھان میں تھے تھے عجب دھیان کے در و دیوار گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے واہ! ان بستیوں کے سنّاٹے سب قصیدے ہماری شان میں تھے آسمانوں میں گر پڑے یعنی ہم زمین کی طرف اڑان میں تھے جون ایلیا

Dil kisi yaar e bewafa ki tarha

دل کسی یارِ باوفا کی طرح باخبر ہے بہت خدا کی طرح زندگی بھر تمہارا نام مرے دل سے نکلا کسی دعا کی طرح میں نے ہر موڑ پر تجھے ڈھونڈا ہجر کے شہر کی ہوا کی طرح عمر بھر تیرا دکھ اُٹھایا ہے وقت کی دی ہوئی سزا کی طرح کچھ نہیں سوجھتا محبت میں خوف اور غم کی انتہا کی طرح فرحت عباس شاہ

Nahi hota nasub mohabbat main

نہیں ہوتا نسب محبت میں کیا عجم ، کیا عرب محبت میں ہم نے اک زندگی گزاری ہے تم تو آئے ہو اب محبت میں اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم ہو گئے جاں بلب محبت میں خامشی ہی زبان ہوتی ہے بولتے کب ہیں لب محبت میں آگہی کے جہان کھلتے ہیں چوٹ لگتی ہے جب محبت میں یہ ہے دشتِ جنوں، یہاں آصف چاک داماں ہیں سب محبت میں