Skip to main content

Posts

Showing posts from August, 2012

ye sub bekar batain han

یہ سب بیکار باتیں ہیں یہ سب بیکار باتیں ہیں یہ سب بے جان رسمیں ہیں فقط الفاظ جادو ہیں ُُمحبت کچھ نہیں ہوتی کسی کے مان جانے سے کوئی ہل چل نہیں ہوتی کسی کے روٹھ جانے سے کوئی جل تھل نہیں ہوتی کسی کا دل دکھانے سے کوئی بے کل نہیں ہوتی ُُمحبت کچھ نہیں ہوتی ُُمحبت کچھ نہیں ہوتی

Hawa ke sath darakhton ke rabty te buht

ہوا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت تھا عکسِ ذات فقط ایک‘ آئینے تھے بہت تمہارے بعد تو سنسان ہو گیا ہے شہر عجیب دن تھے وہ‘ تم تھے تو رتجگے تھے بہت ہمیں نے ترکِ مراسم کی راہ اپنا لی یہ اور بات تعلق کے راستے تھے بہت سحر سے مانگ رہے ہیں وہ عکس خواب و خیال چراغِ شوق جلا کر جو سوچتے تھے بہت چھلک اُٹھے ہیں مرے صبر کے تموج سے رفاقتوں کے جو دریا اُتر گئے تھے بہت تھا جلوہ ریز مری خلوتوں میں اور کوئی یہ جب کی بات ہے‘ جب تم نے خط لکھے تھے بہت وہ تم نہیں تھے مگر ہوبہو وہ تم سا تھا اس اعتبار پہ کل رات بھی ہنسے تھے بہت لبوں پہ حرفِ صدا برف ہو گئے احمد طلوعِ مہر سے پہلے تو حوصلے تھے بہت

Usy kya khbr ke palak palak roshan sitara ghari rahe

اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئنہ، اسے کیا خبر کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب مری نگاہ دھری رہی سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی وہ جو حرفِ بخت تھا لوحِ جاں پہ لکھا ہوا، نہ مٹا سکے کفِ ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی ترے دشتِ ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے وہی چاک پیرہنی رہا وہی خوئے دربدری رہی وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی خالد علیم

Dil main wafa ki hy talab,lub pe sawal bhi nahi

دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں ہم ہیں حصارِ درد میں ، اُس کو خیال بھی نہیں اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جو ہے دھوپ کا یہ جو نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں وہ جو انا پرست ہے ، میں بھی وفا پرست ہوں اُس کی مثال بھی نہیں ، میری مثال بھی نہیں عہدِوصالِ یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑ کنیں موجۂ خون احتیاط! خود کو اُچھال بھی نہیں تم کو زبان دے چکے ، دل کا جہان دے چکے عہدِوفا کو توڑ دیں ، اپنی مجال بھی نہیں اُس سے کہو کہ دو گھڑ ی، ہم سے وہ آملے کبھی مانا! یہ ہے محال پر، اتنا محال بھی نہیں آصف شفیع

Kamyab hai wafa to bahany tarash lon

کمیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لوں نسبت میری جبیں* کو انہیں پتھروں سے ہے مشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لوں اوڑھے رہوں میں جلتی ہوئی دھوپ کی ردا اور موسموں کے گیت سہانے تراش لوں شبنم سے رہگزارِ سحر کا پتا کروں مٹی سے رنگ و بُو کے خزانے تراش لوں نومید مجھ سے میرا خدا آج بھی نہ ہو زخموں کے خال و خد سے زمانے تراش لوں میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگہ کی ہوں دل کی خوشی کو لاکھ فسانے تراش لوں شام و سحر سے دور زمانہ ملے، تو میں اِس بے قرار جاں کے ٹھکانے تراش لوں اِک خواب اور فصلِ بہاراں کے نام ادا آ کر کہا ہے موجِ ہوا نے تراش لوں ادا جعفری

La hasil muhabbat

!لاحاصل مُحبّت! دراصل انسانی وجود کو ایک قبرستان بنا دیتی ہے جس میں وہ اپنی تِشنہ خواہشات اورنامکمل آرزؤں کی قبریں اُٹھائے پھرتا ہے ۔۔ آمنہ ریاض کے ناول ’’مرگِ وفا‘‘ سے اقتباس

Ye ghazai ye tere pur israr bandai

يہ غازی ، يہ تيرے پر اسرار بندے جنھيں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نيم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دريا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہيبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بيگانہ دل کو عجب چيز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنيمت نہ کشور کشائی

Main ne apne dil ko khud be jan karke rak diya

میں نے اپنے دل کو خود بے جان کر کے رکھ دیا رازدانِ دل کو یوں انجان کر کے رکھ دیا تیرے دل میں آشیانہ کل اثاثہ تھا میرا تو نے مجھ کو بے سروسامان کر کے رکھ دیا ڈگمگاتی تھی بہت ، پہلے ہی لاکھوں چھید تھے میری کشتی کو زدِ طوفان کر کے رکھ دیا آتش ِ دل سے لگانے آگ دنیا کو چلا تو نے اک انسان کو شیطان کر کے رکھ دیا راہ کے خاروں سے خود پیروں کے زخموں کو سیا میں نے ہر منزل کو یوں آسان کر کے رکھ دیا تیری یادوں کے ہیولے تیری آوازوں کی گونج میں نے اپنے دل کو یوں گنجان کر کے رکھ دیا آدمی ہی آدمی کی موت کا موجب بنا ہم نے تو قدرت کو بھی حیران کر کے رکھ دیا

Ishq hay rooh ishq zaat ka duk

عشق ہے روح عشق ذات کا دکھ عشق ہے پوری کائینات کا دکھ دل پجاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پتھر کا اسکو سہنا ہے سومنات کا دکھ صبح پھولوں کی ھچکیاں تھی بندھی کیسا ظالم تھا ڈھلتی رات کا دکھ؟ جیت میرا نصیب تھی لیکن مجھ کو لے ڈوبا تیری مات کا دکھ درد دیتی ہے تیری۔۔۔۔۔۔ خاموشی مار دیتا ہےتیری ۔۔۔۔۔۔ بات کا دکھ کوبکو در بدر بھٹکتا۔۔۔۔۔۔ ھے عبرت انجام زرد پات کا دکھ دشمنوں !دوستوں سے کہہ دینا دل پہ کاری تھا انکی گھات کا دکھ حجر اسود پہ اب بھی لکھتے ہیں لوگ اندر کے اک منات کا دکھ ارض بے حال بے ثباتی پر آسماں نیلگوں ثبات کا دکھ اسکا دل تھا میری طلب کا قیام اسکو لاحق تھا شش جہات کا دکھ