Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2012

main scarf keaue pehnti hun

• میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟ "تم نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا حیا! کہ میں ہر وقت اسکارف کیوں پیہنتی ہوں؟" عائشے سر جھکائے لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ تراشتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ "میں تمہیں بتاؤں‘ میرا بھی دل کرتا ہے کے میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول یا اٹل ی اور اسپین کی لڑکیاں پہن کر آتی ہیں۔ بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پہ چلتی آ رہی ہوتی ہیں تو ایک دنیا ان کو محسور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پہ چلوں تو لوگ محسور و متاثر ہو کر مجھے دیکھیں.... لیکن...." وہ سانس لینے کو رکی‘ حیا بنا پلک جھپکے‘ سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔ "لیکن.... پھر مجھے خیال آتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک دن میں مر جاؤں گی‘ جیسے تمہاری دوست مر گئی تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی‘ جس کے اوپر میں چلتی ہوں۔ پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور زمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور لال آندھی ہر سو چلے گی۔ اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ تم نے کبھ

Hum dasht e janoo ke sodai

.ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہم گردِ سفر، ہم نقشِ قدم۔۔ ہم سوزِطلب، ہم طرزِ فغان--- ہم رنج چمن، ہم فصل خزاں ۔۔۔ ہم حیرت و حسرت و یاس و الم--- ہم دشت جنوں کے سودائی یہ دشتِ جنوں، یہ پاگل پن ۔۔ یہ پیچھا کرتی رسوائی--- یہ رنج و الم، یہ حزن و ملال۔۔۔ ... یہ نالہء شب، یہ سوزِ کمال--- دل میں کہیں بے نام چبھن۔۔ اور حدِ نظر تک تنہائی --- ہم دشتِ جنوں کے سودائی--- اب جان ہماری چُھوٹے بھی۔۔ یہ دشتِ جنوں ہی تھک جائے -- جو روح و بدن کا رشتہ تھا۔۔ کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا -- اب دل کا دھڑکنا رک جائے۔۔ اب سانس کی ڈوری ٹوٹے بھی -- ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔

manzar ke ird gird bhi aur aar par dund

منظر کے اردگرد بھی اور آرپار دُھند آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بےشمار دُھند کیسے نہ اُس کا سارا سفر رائیگاں رہے جس کاروانِ شوق کی ہے راہگزار دُھند ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہوا کرتی ہے اس میں چھپ کر مرا انتظار دُھند آنکھیں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ دل وہ چمن کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند کمرے میں میرے غم کے سوا اور کچھ نہیں کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار دُھند فردوسِ گوش ٹھہرا ہے مبہم سا کوئی شور نظارگی کا شہر میں ہے اعتبار ، دُھند ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جابجا امجد فضائے جاں میں ہے یوں بےقرار دُھند

usay kehna ye dunya hai

اسے کہنا یہ دنیا ہے ! یہاں ہر موڑ پہ ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں ! جو اندر تک اترتے ہیں ! ابد تک ساتھ رہنے کی ! اکھٹے درد سہنے کی ! ...ہمیشہ بات کرتے ہیں ! اسے کہنا . . ! یہ دنیا ہے ! یہاں ہر شخص مطلب کی ! حدوں تک ساتھ چلتا ہے . . ! جونہی موسم بدلتا ہے ! محبت کے سبھی دعوے ! سبھی قسمیں ! سبھی وعدے ! سبھی رسمیں ! اچانک ٹوٹ جاتے ہیں ! اسے کہنا … . ! یہ دنیا ہے … !

zara se dair ko manzar suhany lagte han

ذرا سی دیر کو منظر سُہانے لگتے ہیں پھر اُس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں میں سوچتا ہوں کہ تو دربدر نہ ہو، ورنہ تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس کھلی فضا میں تجھے گنگنانے لگتے ہیں جو تو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے ہم اپنے آپ سے خود ہی نبھانے لگتے ہیں عجیب کھیل ہے جلتے ہیں اپنی آگ میں ہم پھر اپنی راکھ بھی خود ہی اُڑانے لگتے ہیں یہ آنے والے زمانے مرے سہی، لیکن گذشتہ عمر کے سائے ڈرانے لگتے ہیں نگار خانہء ہستی میں کیسا پائے ثبات کہیں کہیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں

Mujay na socahi

مجھے نہ سوچے۔ میں دل گرفتہ ادھورا شاعر میں الجھی سوچوں بکھرتی نظروں بھٹکتی راہوں کا اک مسافر۔ خیال ترچھے سوال آڑھے قدم میرے لڑکھڑا چکے ھیں ۔ سوال ایسے ازل سے جن پر ضمیر آدم نے کچھ نہ سوچا۔ جواب ایسے کہ گر کبھی خود کو بھی بتاؤں تو کانپ جاؤں۔ گزرتے لمحوں کی گرد چہرے پہ تہ بہ تہ جمتی ہی جا رہی ھے۔ نقوش میرے مٹا رہی ھے میں اپنا خنجر خود اپنی شہ رگ پہ آزما چکا ھوں۔ میں خود بھی خود کو بھلا چکا ھوں ۔ اسے یہ کہنا مجھے نہ سوچے۔۔

khoob hai shoq ka ye pehlo bhi

خُوب ہے شوق کا یہ پہلُو بھی میں بھی برباد ہوگیا، تُو بھی حسن ِمغموم، تمکنت میں تری فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی یہ نہ سوچا تھا زیرِ سایہء زلف کہ بچھڑ جائے گی یہ خوشبُو بھی حسن کہتا تھا، چھیڑنے والے چھیڑنا ہی تُو بس نہیں، چُھو بھی ہائے وہ اس کا موج خیز بدن میں تو پیاسا رہا لبِ جُو بھی یاد آتے ہیں معجزے اپنے اور اُس کے بدن کا جادُو بھی یاسمیں! اُس کی خاص محرمِ راز یاد آیا کرئے گی اب تُو بھی یاد سے اُس کی ہے مرا پرہیز اے صبا اب نہ آئیو تُو بھی ہیں یہی جون ایلیا ،جو کبھی سخت مغرور بھی تھے، بدخُو بھی