Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2013

sun liya hum ne faisala tera

سن لیا ہم نے فیصلہ----- تیرا اور سن کر' اداس ہو بیٹھے ذہن چپ چاپ آنکھ خالی ہے جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے دھندلے دھندلے سےمنظروں میں مگر چھیڑتی ہیں تجلیاں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تیری بھولی بسری ہوئی رتوں سے ادھر یاد آئیں۔۔۔ ۔تسلیاں۔۔۔ ۔۔۔ ۔تیری دل یہ کہتا ہے۔۔۔ ۔۔ ضبط لازم ہے ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک اعترافِ شکست کیا کرنا۔۔۔ ۔۔۔ ! فیصلے کی گھڑی بدلنے تک دل یہ کہتا ہے ۔۔۔ ۔۔حوصلہ رکھنا سنگ رستے سے ہٹ بھی سکتے ہیں اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے! جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں! اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے مناظر بجھے بجھے۔۔۔ ۔۔۔ دیکھیں؟ اک طرف تو ہے' اک طرف دل ہے دل کی مانیں۔۔۔ ۔کہ اب تجھے دیکھیں خود سے بھی کشمکش سی جاری ہے راہ میں تیرا ۔۔غم بھی حائل ہے چاک در چاک ہے قبائے حواس بے رفو سوچ' روح گھائل ہے تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے ورنہ یوں ہے کہ دامنِ دل میں چند سانسیں ہیں' گن کے جی لیں گے

chehre parhta ankhain lekta rehta hun

چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟ مجھ کو خط لکھنے کے تیور بھول گئے آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے ؟ تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں تیری زلف کے سائے دھیان میں رہتے ہیں میں صبحوں کی شامیں لکھتا رہتا ہوں اپنے پیار کی پھول مہکتی راہوں میں لوگوں کی دیواریں لکھتا رہتا ہوں تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں اس کی بھیگی پلکیں ہستی رہتی ہیں محسن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں محسن نقوی

Bint e hawa

’’تمہیں پتا ہے ہر مرد کے پاس لفظوں کی ایک پٹاری ہوتی ہے جس میں وہ خوشنما،خوبصورت اور سحر انگیز لفظوں کا ڈھیر جمع کرتا جاتا ہے۔وہ ہر موقعے پر بڑی مہارت کے ساتھ عورت پر لفظوں کا جال پھینکتا ہے اور عورت اتنی سادہ اور بے وقوف ہوتی ہے کہ جب کسی مرد کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے تو اپنی عقل اور سوچنے سمجھنے کی ساری حسیّں اٹھا کر طاق پر رکھ دیتی ہے۔وہ ان خوشنما لفظوں کی تتلی کے پیچھے لپکتی ہے ،اور بعض دفعہ اس کے حصّے میں بس چند چھبنے والے پھیکے سے رنگ ہی آتے ہیں۔جب کہ مرد اُسی تتلی کو لیے نئے جہاں تسخیر کرنے نکل جاتا ہے۔۔۔‘‘ (صائمہ اکرم چوہدری کے اول بنت حوا سے ایک اقتباس)

nukta cheen hay gham dil usko sunaye na bany

نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بُلاتا تو ہوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دل اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے کاش یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے ، تو چُھپائے نہ بنے اِس نزاکت کا بُرا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا ہاتھ آویں ، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ بِن آئے نہ رہے تم کو چاہوں کہ نہ آؤ ، تو بُلائے نہ بنے بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بُجھائے نہ بنے مرزا غالب

Aya hun sang o khasht ke anbar daik kar

آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر آنکھیں کُھلی رہی ہیں مری انتظار میں آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر غم کی دُکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے میرے قدم میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر بے حسی بھی وقتِ مدد دیکھ لی عدیم کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر عدیم ہاشمی

ishq ki mayosiyon main soz pinhan kuch nahi

عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں اس ہوا میں یہ چراغ زیر داماں کچھ نہیں کیا ہے دیکھو حسرتِ سیرِ گلستاں کچھ نہیں کچھ نہیں اے ساکنانِ کنج زنداں کچھ نہیں جینے والے جی رہے ہیں اور ہی عالم میں اب دوستو طول غمِ شبہائے ہجراں کچھ نہیں عشق کی ہےخود نمائی عشق کی آشفتگی روئے تاباں کچھ نہیں زلف پریشاں کچھ نہیں درد کے مارے ہوئے کل روتے روتے ہنس پڑے پھر کہو گے عشق کی تاثیر پنہاں کچھ نہیں آنکھ والے دیکھ لیں میرے سیہ خانے کی سیر ماہ تاباں کچھ نہیں مہر درخشاں کچھ نہیں ایک ہوجائے نہ جب تک سرحدِ شوق جنوں ایک ہو کر چاکِ دامان و گریباں کچھ نہیں یاد آہی جاتی ہے اکثر دلِ برباد کی یوں تو سچ ہے چند ذرات پریشاں کچھ نہیں کاش اپنے ہجر سے بیتاب ہوتے اے فراق دوسرے کے واسطے حال پریشاں کچھ نہیں فراق گھورکھپوری

har taraf anbisat hay ay dil

ہر طرف انبساط ہے اے دل اور ترے گھر میں رات ہے اے دل عشق ان ظالموں کی دنیا میں کتنی مظلوم ذات ہے اے دل میری حالت کا پوچھنا ہی کیا سب ترا التفات ہے اے دل اس طرح آنسوؤں کو ضائع نہ کر آنسوؤں میں حیات ہے اے دل اور بیدار چل کہ یہ دنیا شاطروں کی بساط ہے اے دل صرف اُس نے نہیں دیا مجھے سوز اس میں تیرا بھی ہاتھ ہے اے دل مُندمل ہو نہ جائے زخمِ دروں یہ مری کائنات ہے اے دل حُسن کا ایک وار سہہ نہ سکا ڈوب مرنے کی بات ہے اے دل

hisab umer ka itna sa ghoshwara hay

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارہ ہے عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

khatm apne chahaton ka silsila kaisy hua

ختم اپنی چاہتوں کا سلسلہ کیسے ہوا تو تو مجھ میں جذب تھا مجھ سے جدا کیسے ہوا وہ جو تیرے اور میرے درمیاں ایک بات تھی آئو سوچیں شہر اسے آشنا کیسے ہوا چب گئیں سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں کیا لکھوں دل ٹوٹنے کا حادثہ کیسے ہوا جو رگِ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رخ پھیر کر سوچتا ہوں اس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا