Skip to main content

Posts

Showing posts from August, 2013

Be aib tasveer

بے عیب تصویر : ایک بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دکھ سکھ کو سمجھنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔ اور وہ بھی اس شرط پر، کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔ سارے کے سارے مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔ اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا، اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سےبھی لنگڑا تھا۔ لیکن اس اجتماعی انکار میں ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر۔ اور جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور شاہکار تھی۔ وہ کیسے؟؟ تصویر میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھے ، جس کیلئے لا محالہ اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند ، اور اُسکے (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔ اور اس طرح بڑی آسانی سے ہی بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔ کیوں ناں ہم بھی اِسی طرح

Bacha aur miss

کلاس میں سمندری مخلوق پر گفتگو کرتے ہوئے میڈم نے بتایا کہ وھیل مچھلی 30 دن تک بغیر کچھ کھائے زندہ رہ سکتی ہے۔ جس پر ایک بچہ حیرت میں ڈوب گیا۔ کھڑے ہو کر کہنے لگا " لیکن میڈم ! میں نے تو بائیولوجی کی کتاب میں پڑھا تھا کہ وھیل مچھلی بغیر کھائے صرف 10 دن زندہ رہ سکتی " میڈم سٹپٹا گئی ۔ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بولی " نہیں ! وہ 30 دن تک زندہ رہتی ہے" بچے نے میڈم کے غصے اور بحث سے بچنے کے لیے بیٹھتے ہوئے کہا " ٹھیک ہے۔ جب میں جنت میں جاؤں گا تو وھیل مچھلی سے خود ہی پوچھ لوں گا" میڈم نے بچے کو مزید چڑانے کے لیے فاتحانہ انداز میں چوٹ کی  " لیکن اگر وھیل مچھلی جنت کی بجائے جہنم میں چلی گئی تو ۔۔۔۔۔۔۔ "  " تو میڈم ۔ پھر آپ پوچھ لیجئے گا " بچے نے کندھے اچکا کر جواب دیا 

Kon bimari main ata hy ibadat karne?

کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟ غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟ حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے امیر مینائی

Sachay log

نہیں ، اُنھیں کچھ نہ کہو ، وہ بہت پیارے لوگ اور سچے لوگ تھے ! کُھل کر نفرت کا اظہار کرتے تھے اور پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چاہتے بھی تھے _ اب تو کچھ بھی نہیں رہا _ "نہ نفرت نہ محبت" لوگ مصلحتا" ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور زندگی بھر اداکاری کرتے رہتے ہیں !!! بھیڑئیے کی آواز _______ ابن ِ صفی

Shart

فوجی یونٹ میں ایک سپاہی شر طیں لگانے اور حیرت انگیز طور پرجیت جانے میں بڑی شہرت رکھتا تھا ۔ ایک یونٹ سے دوسرے یونٹ میں اس کا تبادلہ ہوا تو اس کی سابقہ یونٹ کے کما نڈر آفیسر نے اس کے نئے یونٹ کے کمانڈر آفیسرکو ٹیلی فون پر بتا یا کہ ہماری یونٹ سے آپ کے ہاں ایک پوسٹ ہو کر ٓانے والا فالا ں سپا ہی شر طیں لگانے اور ہر بار جیت جانے میں بڑا ما ہر ہے ،تم احتیاط کرنا ۔ احتیاط کی تلقین پانے وا...لے کما نڈر آفیسر کو نئے آنے والے سپاہی کے باتے میں تجسس بڑھا اور اس نے اپنے پرسنل اسسٹنٹ سے کہا ، یہ باکمال سپاہئ جو نہی یو نٹ پہنچے مجھے اس سے ملوا دینا ۔ اگلے دن نئی کلف شدہ وردی پہنے یہ سپاہی کما نڈر آفیسر کے سامنے کھڑا تھا ۔ صا حب کے استفسار پر اس نے کہا ، سر ایسی کوئی بات نہیں ، میں یو نہی بات بات پر شرط نہیں لگاتا ۔بس جب بات ہی ایسی ہو تو شرط لگا نا پڑتی ہے اور ہار جیت تو مقدر کی بات ہے ۔جیسے اب مجھے معلوم ہے کہ آ پ کی پیٹھ پر تل ہے آپ اگر پانچ سو روپے کی شرط لگاتے ہیں تو میں اس کیلئے تیار ہوں ۔ کما نڈر آفیسر کو بھی کبھی نہ ہارنے والے کو ہرانے کا اشتیاق تھا  ، اس نے فورا اپنی شرٹ کے

Diyar e ghair main kaisy tujay saza daity

دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے تمہی نے ھمکو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ دعا وہ کرتے کہ ھم آسماں ہلا دیتے ھمیں یہ زعم رھا اب کے وہ پکاریں گے  انہیں یہ ضد تھی کہ ھر بار ھم صدا دیتے وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی کہ جسکو حال سناتے اسے رلا دیتے تمہیں بھلانا ھی اول تو دسترس میں نہیں ! جو اختیار بھی ھوتا تو کیا بھلا دیتے ؟ ھم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا  ھمارے بس میں جو ھوتی تو ھم دلا دیتے تمہاری یاد نے کوئی جواب ھی نہ دیا میرے خیال کے آنسو رھے صدا دیتے سماعتوں کو میں تا عمر کوستا وصی  وہ کچھ نہ کہتے مگر ھونٹ تو ھلا دیتے .

Motti bar toffies

بچہ اپنی ماں کے ساتھ دوکان میں داخل ہوا ، دکاندار نے بچےکی طرف دیکھا تو وہ اسے بہت ہی پیارا لگا ، دوکان دار نے ٹافیوں والا ڈبہ اٹھایا اور کھول کر بچے کے سامنے کر دیا، بچے نے سوالیہ نظروں سے دکاندار کی طرف دیکھا تو دکاندار نے کہا بیٹا آپ اس میں سے ٹافیاں لے لو ، بچے نے انکار کر دیا دکاندار نے اصرار کیا لیکن بچہ نہ مانا، دکاندار نے بچے کی ماں کی طرف دیکھا ، ماں نے اپنے بیٹے کو ٹافیاں لینے کی اجازت دے دی اور ٹافیاں لینے کو کہا لیکن بچے نے نفی میں سر ہلا دیا ، اب دکاندار کے ساتھ ساتھ ماں بھی حیران ہو گئی کہ بچہ ٹافیاں کیوں نہیں لے رہا ، آخر کار دکاندار نے خود ڈبے میں سے مٹھی بھر کر ٹافیاں نکالی اور ہاتھ بچے کی طرف بڑھایا بچے نے فورا" ہی ٹافیاں لے لیں اور خوش ہوگیا۔ گھر آ کر ماں نے بچے سے پوچھا کہ کیا وجہ تھی کہ تم نے پہلے ٹافیاں نہیں لی پھر جب دکاندار نے دی تو تم نے فورا" پکڑ لی۔ بچے نے مسکرا کر کہا کہ پہلے دکاندار مجھے ڈبے میں سے ٹافیاں نکالنے کو کہہ رہا تھا اور میرے ہاتھ چونکہ چھوٹے ہیں تو میری مٹھی میں کم ٹافیاں آتی لیکن جب دکاندار نے خود مٹھی بھری تو اسکا ہا

Rishwat........

میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا ’’ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9بجے سے 12تک بلا روک ٹوک تشریف لاسکتے ہیں‘‘۔ ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی ، رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے۔ جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی ۔اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60-70 میل دور اس گائوں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گائوں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شرانگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے ایک جزدان اُٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا ’’حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں‘‘، گائوں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔ ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر

American

جہاز میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی چھ سات سال کی ایک عرب بچی بہت غور سے جہاز کے بیرونی مناظر دکھ رہی تھی۔ اسکے ساتھ والی سیٹ پر ایک امریکی بیٹھا تھا جو بین الاقوامی معاملات کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے ، وہ امریکی کچھ دیر تو بور ہوتا رہا پھر تنگ آکر بچی سے کہا "ایکسیوزمی بیٹا! مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس طویل سفر کی بوریت کو ختم کرنے کے لیے گفتگو کرنی چاہیے۔" "آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں۔" ۔بچی نے ڈسٹرب کیے جانے پر تھوڑی ناپسندیگی سے امریکن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کا انداز اور بات سن کر امریکی مسکرا دیا اور بولا۔"ہم ایران کے ایٹمی معاملات یا بین الاقوامی دہشت گردی کے بار ے میں بات کر سکتے ہیں۔" "لڑکی نے کہا کیا ہہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دینا پسند کریں گے" امریکی نے کہا "ضرور" لڑکی نے نہایت سنجیدگی سے پوچھا "ایک گائے، بکری اور گھوڑا ایک ہی قسم کا چارہ کھاتے ہیں لیکن ان تینوں کا فضلہ ایک دوسرے سے مخلتف کیوں ہوتا ہے۔" امریکی نے شرمندہ سے لہجے میں کہا "میں اس کا علم نہیں ہے میں اسکا جواب نہیں دے

Waghera waghera

وغیرہ وغیرہ "آج تمہارا ڈرائیونگ ٹیسٹ تھا۔ کیا رزلٹ آیا؟" "ٹیسٹ لینے والا زخمی حالت میں اسپتال میں پڑا ہے اسے ہوش آئے گا تو رزلٹ پتا چلے گا۔" یہ تمہارے بیٹے کو انگوٹھا چوسنے کی عادت تھی۔ تم نے یہ عادت کیسے چھڑائی؟" "میں نے اس کی نیکر کا الاسٹک ڈھیلا کردیا، اب وہ ہر دم نیکر کو تھامے رہتا ہے۔" "بس میں بوڑھے کی جیب سے نوجوان کا ہاتھ ٹکرایا تو اس نے نوجوان سے کہا "کیا کررہے ہو؟" "نوجوان نے فوراً جواب دیا۔ "گورنمنٹ کالج سے بی اے کررہا ہوں۔" بیوی۔ "میں مر جاؤں گی تو تمہیں مجھ جیسی بیوی نہیں ملے گی۔" شوہر۔ "مگر میں تمہارے جیسی تلاش ہی کیوں کروں گا؟" "تم نے چور کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟" "میں چور کو بے شک گرفتار نہ کرسکا مگر اس کی انگلیون کے نشانات اپنے گال پر لے آیا ہوں۔"

Jutt

( جٹ بھائیوں سے معذرت کے ساتھ ) جٹ اُسے کہتے ہیں جس نے تھری پیس کے نیچے جوگر پہنے ہوں، یہ لوگ اس وقت تک نہیں پہچانے جا سکتے جب تک کہ اردو نہ بولیں ۔۔۔۔۔ ایک فائیو سٹار میں بیٹھے جٹ صاحب نے ویٹر کو بلا کر کہا ۔۔۔۔۔۔!!! "میری چائے میں "کھانڈ" کم کیوں ہے؟" ویٹر نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔۔ "سوری سر! میں دوسری چائے لے آتا ہوں" جٹ صاحب بولے ۔۔۔۔۔ "اوکے ۔۔۔۔۔ لیکن ذرا "چھیتی" آنا ۔۔۔۔" ویٹر کو چائے لانے میں دیر ہو گئی، جٹ صاحب کڑکے! "اے مسٹر ۔۔۔۔۔ میں "چروکنے" کا یہاں تمہاری چائے کے انتظار میں بیٹھا ہوں، جاؤ چائے واپس لے جاؤ ورنہ میں تمہارے منہ پر "ڈول" دوں گا

Sikankar da islam

یہ تحریر نہیں آئینہ ہے جس میں ہم سب کو اپنا چہرہ دکھائی دے گا مظلوم اسلام . ... ﴿جاوید چودھری﴾ سکندر ایشو کا آخری پہلو اسلام تھا‘ سکندر دبئی میں رہتا تھا‘ یہ وہاں بری سوسائٹی میں پھنس گیا‘ اس نے نشہ شروع کر دیا‘ یہ عادت اسے ہیروئن تک لے گئی‘ علاج ہوا‘ یہ ٹھیک ہو گیا لیکن ہیروئن اس کے دماغ‘ اس کے مزاج اور اس کے رویوں پر اپنا اثر چھوڑ چکی تھی‘ یہ مستقل نفسیاتی مریض بن گیا‘ یہ باریش تھا مگر اس نے داڑھی منڈوا دی‘ یہ شراب بھی پیتا تھا‘ چرس کا عادی بھی تھا‘ یہ نیند کی گولیاں بھی کھاتا تھا اور یہ سگریٹ بھی پیتا تھا‘ اس نے دو شادیاں کیں‘ اس کی پہلی بیوی کا تعلق دوبئی سے تھا اور یہ عمر میں بھی اس سے زیادہ تھی‘ دوسری شادی پاکستان میں کی مگر یہ اپنی بیوی سے اکثر جھگڑتا رہتا تھا‘ یہ بیوی پر تشدد بھی کرتا تھا‘ یہ پیسے کے معاملے میں بھی تنگ تھا‘ ماں اس سے اس قدر تنگ تھی کہ اس نے اسے عاق کر دیا۔ یہ زخمی ہوا اور اسپتال میں زندگی اور موت کی سرحد پر جا کھڑا ہوا تو بھی اس کے خاندان کا کوئی فرد اس سے ملاقات کے لیے نہیں آیا‘ اس کے بھائی اور دوست بھی اس سے نالاں تھے چنانچہ کوئی بھائی

Zindagi se yahi gela hay mujay

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے کوئی چال تو چل ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے ہم سفر چاہیے ہجوم نہیں اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے

Amma bhai kab maray ga

اماں ! بھائی کب مرے گا؟ یہ گھرانہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل تھا جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ گھر کا سربراہ بہت عرصے سےبیمار تھا جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگرکسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اسنے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی “تلاش” کے بعد دوچار چیزیں نکل آئ یں جنھیں کباڑیے کو فروخت ک

Suhbt rozz bekti hay aqeedat rozz bekti hay

صیحت روز بِکتی ہے، عقیدت روز بِکتی ہے تمہارے شہر میں لوگو! محبت روز بِکتی ہے امیرِ شہر کے دَر کا ابھی محتاج ہے مذہب ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بِکتی ہے ہمارے خُون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالے گا خریداروں کے جُھرمٹ میں عدالت روز بِکتی ہے نجانے لُطف کیا مِلتا ہے ان کو روز بِکنے میں طوائف کی طرح لوگو! قیادت روز بِکتی ہے کبھی مسجد کے ممبر پر، کبھی حُجرے میں چُھپ چُھپ کر میرے واعظ کے لہجے میں، قیامت روز بِکتی ہے بڑی لاچار ہیں ساجد جبینیں ان غریبوں کی کہ مجبوری کی منڈی میں عبادت روز بِکتی ہے

Tameer o taraqi ki batain

ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺯﯾﺐ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺷﯽ ﺍﺳﺘﺤﮑﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻧﻘﻄﮯ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﭼﮑﯽ ﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻋﯿﺎﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﯽ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺟﻮﻥ ﺍﻳﻠﻴﺎ

Hamara deen

میں تھکا ہارا بس میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کہ دل کو اطمینان ہوا کہ دو سیٹیں خالی ہیں میں لپک کر ایک سیٹ پر جا بیٹھا۔ لندن کی اس مصروف شاھراہ پر بس میں بیٹھنے کےلیے جگہ مل جانا کسی غنیمت سے کم نہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب میں کام کی تلاش میں چار گھنٹے سے مارا مارا پھر رھا تھا۔ خیر اللہ کا شکر ادا کیا اور سستانے لگا۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک معمر جوڑا بس میں داخل ہوا خاتون ذرا تندرست معلوم ہوتی تھیں لپک کر میرے سامنے موجود خالی سیٹ پر براجمان ہو گئی لیکن بس میں اور کوئی سیٹ خالی نہ پا کر اس کا شوہر حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ُادھر دیکھنے لگا۔ سب اپنی اپنی مستی میں مگن رہے اور پوری بس میں سے کسی کو بھی اس بات کا خیال نہ آیا کہ ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے  یوں تو میں کافی تھکا ھوا تھا اور میری منزل بھی ابھی خاصی دور تھی لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے اس بوڑھے کےلیے جگہ خالی کر دی خود اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اس وقت بوڑھے کی اۤنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دی اور اس نے بس میں لگا ہینڈل جس کو ایک ہاتھ سے تھا مے وہ سہارا لیے کھڑا تھا چھوڑ کر مجھ ے سلیوٹ کیا اس عمل کے دور

Ahmad faraz ki shararatain

احمد فراز کی شرارتیں احمد فراز بچپن ہی سے ایک بگڑا ہوا بچہ تھا سکول کے زمانے میں پڑھائی میں اس کا جی نہیں لگتا تھا نت نئی شرارتوں سے پوری کلاس کو سر پر اٹھا لیتا نہ خود پڑھتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا استادوں کا اس نے ناطقہ بند کر رکھا تھا اسے مار مار کر وہ عاجز آگئے تھے اور حیران تھے کہ اس لونڈے کا کیا کریں ایک استاد بائیں کان سے بہرہ تھا ایک دفعہ اسے جو شرارت سوجھی تو اس کے بہرے کان کی طرف منہ کر کے کوئی ناروا بات کہہ دی، لیکن معاملہ گڑبڑ ہو گیا وہ اس کا دایاں کان تھا جو بہرہ نہیں تھا استاد بھڑک اٹھا اور فراز کی خوب پٹائی ہوئی (فارغ بخاری) ہوم ورک کر کے نہ لانے پر، فراز کو صبح ہی سخت سردی میں ہاتھوں پر بید کھانے پڑے دوسرے دن اس نے ماسٹر سے بدلہ لینے کی ایک نئی ترکیب سوچی، اسکول آٹھ بجے لگتا تھا لڑکے ساڑھے سات بجے تک گراؤنڈ میں پہنچ جاتے اور اسمبلی سے پہلے مختلف کھیل کھیلتے رہتے فراز نے اس صبح کلاس کے تمام لڑکوں کو سکھا دیا کہ جب ماسٹر گرلکھ سنگھ اسمبلی کے بعد میدان میں حاضری لے تو کوئی بھی اپنا رول نمر سن کر "یس سر" نہ کہے سو ایسا ہی ہوا پہلا نام سمیع الدین کا

Chota sa bachaa

میرے قرآن پاک پڑھانے والی استاد جی بچوں میں پھل بانٹ رہے تھے ایک بچہ بار بار لائن میں چلا آتا میں یہ منظر کافی دیر سے دیکھ رہا تھا ( واضح رہے میرے استاد جی نابینا ہیں ) اب میں جو کافی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا نہ جانے کونسی غیبی طاقت نے میرے قدم جکڑ رکھے تھے ورنہ میں اس بچے کو ضرور ایسا کرنے سے منع کرتا کیوں کہ باقی بچوں کے ہاتھوں میں ایک ایک فروٹ تھا پر وہ کمزور سا چڑیا جیسا بچہ اچھے خاصے آم اور تربوز اپنے تھیلے میں ڈال چکا تھا اور حیرانگی مجھے اس بات پر بھی ہوئی کہ استاد جی کے پاس اگر دوبارہ کوئی بچہ آتا جو پہلے لے جا چکا ہو تو استاد جی اسکے گال کھینچتے اور بھگا دیتے پر اسے نہ جانے کیسے نہیں پہچان پا رہے تھا یا وہ کیسے چکمہ دے جاتا تھا جب کہ آج تک مجھ جیسا بھگوڑا انہیں چکمہ نہیں دے پایا خیر دل میں ایک عجیب سی خوشی بھی تھی کوئی تو ہے جس سے استاد جی چکمہ کھا گۓ.. خیر جب فروٹ ختم تماشا ہضم ہوگیا تو میں استاد جی کے پاس چلا گیا جو اپنے گھر کی طرف واپس جا رہے تھے خیر میں نے راستے میں ہی انکو آ لیا اور کہنے لگا .. " بادشاہ لوگو میرا حصّہ کہاں ہے ا بھی اتنا بڑا تو نہ ہو

Aksar shab e tanhai main

اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے گزری ہوئی دلچسپیاں  بیتے ہوئے دن عیش کے بنتے ہیں شمعِ ذندگی  اور ڈالتے ہیں روشنی میرے دلِ صد چاک پر وہ بچپن اوروہ سادگی وہ رونا وہ ہنسنا کبھی پھر وہ جوانی کے مزے وہ دل لگی وہ قہقہے وہ عشق وہ عہدِ و فا وہ وعدہ اور وہ شکریہ وہ لذتِ بزمِ طرب یاد آتے ہیں ایک ایک سب دل کا کنول جو روز و شب  رہتا شگفتہ تھا سو اب اسکا یہ ابتر حال ہے اک سبزۂ پا مال ہے اک پھو ل کُملایا ہوا ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا روندا پڑا ہے خاک پر یوں ہی شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے گزری ہوئی ناکامیاں بیتے ہوئے دن رنج کے بنتے ہیں شمعِ بےکسی اور ڈالتے ہیں روشنی ان حسرتوں کی قبر پر جوآرزوئیں پہلے تھیں  پھر غم سے حسرت بن گئیں غم دو ستو ں کی فوت کا ان کی جواناں موت کا لے دیکھ شیشسے میں مرے  ان حسرتوں کا خون ہے جو گرد شِ ایام سے جو قسمتِ ناکام سے یا عیشِ غمِ انجام سے مرگِ بتِ گلفام سے خود میرے غم میں مر گئیں کس طرح پاؤں میں حزیں قابو دلِ بےصبر پر جب آہ ان احباب کو میں یاد کر اٹ