Skip to main content

Posts

Showing posts from April, 2013

Ajanabi sheher k ajnabi raste mere tanhai par muskuraty rahay

اجبنی شہر کے اجنبی راستے میرے تنہائی پر مسکراتے رہے میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے زہر ملتا رہا زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے سخت حالات کے تیز طوفان میں گھر گیا تھا ہمارا جنوں وفا ہم چراغ تمنا جلاتے رہے وہ چراغ تمنا بجھاتے رہے

Ay Husn-e-Be-Misaal , Tujhe Kia Misaal Doon

اے حُسنِ بے مثال تُجھے کیا مثال دُوں لے آئینہ سنبھال تُجھے کیا مثال دُوں تُو رنگِ بے پناہ تُو سر چشمۂِ خیال میں زرد اور نڈھال تُجھے کیا مثال دُوں Ay Husn-e-Be-Misaal , Tujhe Kia Misaal Doon Lay Aaeina Sanbhaal , Tujhe Kia Misaal Doon Tu Rang-e-Be-Panah, Tu Sar Chashma-e-Khayal Mein Zard Or Nidhaal, Tujhe Kia Misaal Doon

main kis ke naam lekun jo alam guzar rahe hain

میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں وہی طائروں کے جھُرمَٹ جو ہَوا میں جھُولتے تھے وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی ہمِیں قتل ہو رہے ہیں، ہمِیں قتل کر رہے ہیں عبیداللہ علیم

imam ghazali

ﺍﻗﻮﺍﻝِ ﺯﺭﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﮐﯿﻼ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﮑﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﯾﮟ۔ ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ

thi agar any main maslehat haeel

تھی گر آنے میں مصلحت حائل یاد آنا کوئی ضروری تھا مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا اور ایسے اہم مذاق کے بعد رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا جون ایلیا

Allah Allah Jamal Unka Hai

اَللہ اَللہ جمال اُن کا ہے حُسن ، کومل کمال اُن کا ہے شَہد ، بادَل ، صراحی ، جھیل ، کنول جو بھی اَچھا ہے مال اُن کا ہے دِل میں گو کہ خیال لاکھوں ہیں سب سے اُونچا خیال اُن کا ہے اُن کا اِک بال بھی گو میرا نہیں پر مرا بال بال اُن کا ہے آخری سال میرا یہ ہو گا سولہواں چونکہ سال اُن کا ہے دِل ، جگر ، جاں ہے میری اُن کے پاس میرے پاس اِک رُومال اُن کا ہے آگ بھڑکاتا ہے تجسس کی پردہ ’’دَرپردہ‘‘ جال اُن کا ہے دوستو! بن مُبالغے کے سنو آفتاب ایک خال اُن کا ہے وہ اَداؤں کے پیر و مرشِد ہیں منتظِر ہر غزال اُن کا ہے حُسنِ بندش کی اَوج سیکھو قیس شَہر بھر یرغمال اُن کا ہے

dil dhoob na jaye pyason ki takleef zara farma dena

دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے، تکلیف زرا فرما دینا اے دوست کسی مے خانے سے کچھ زیست کا پانی لا دینا طوفان حوادث سے پیارے کیوں اتنا پریشاں ہوتا ہے آثار اگر اچھے نہ ہوئے اک ساغر مے چھلکا دینا ظلمات کے جھرمٹ ویسے تو بجلی کی چمک سے ڈرتے ہیں پر بات اگر کچھ بڑھ جائے تاروں سے سبو ٹکرا دینا ہم حشر میں آتے تو ان کی تشہیر کا باعث ہوجاتے تشہیر سے بچنے والوں کو، یہ بات زرا سمجھا دینا میں پیرہن ہستی میں بہت عریاں سا دکھائی دیتا ہوں اے موت مری عریانی کو ملبوس عدم پہنا دینا عبدالحمید عدم

Hal dil jis ne suna garya kya

حال دل جس نے سنا گریہ کیا ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا پھر کسی جان وفا کی یاد نے اشک بے مقدور کو دریا کیا تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے ابر رسا اک رات بھر برسا کیا دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی کام ساون کا کیا اچھا کیا آپ کے الطاف کا چرچا کیا ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا ابن انشاء

tehry pani ko wahi rait purany de de

ٹھہرے پانی کو وہی ریت ’پرانی دےدے میرے مولا میرے دریا کو روانی دےدے آج کے دن کریں تجدیدِ وفا دھرتی سے پھر وہی صبح وہی شام سہانی دےدے تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر ’اٹھا ہے میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دےدے وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے ’اس کی خوشبو ہی بطور اک نشانی دےدے تپتے صحراؤں پہ ہو ’لطف و کرم کی بارش خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دےدے دیدہ و دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں وہی چہرہ ،وہی آنکھیں وہ جوانی دےدے جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیں میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دےدے حسن رضوی

duk to nahi ke tanha musafat main mar gaya

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا حاکم خود اپنے عہد حکومت میں مر گیا زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا اس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا

hum ne soch rakka hay

ھم نے سوچ رکھا ہے چاہے دل کی ہر خواہش زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہ جائے چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جایں اور بے مقدر ھم اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جایں تم سے کچھ نہیں کہنا کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے اور اب گلابوں پر نیند والی آنکھوں پر نرم خو سے خوابوں پر کیوں عذاب ٹوٹے ہیں تم سے کچھ نہیں کہنا گھر گئے ہیں راتوں میں بے لباس باتوں میں اس طرح کی راتوں میں کب چراغ جلتے ھیں کب عذاب ٹلتے ہیں اب تو ان عذابوں سے بچ کےبھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں ھم نے سوچ رکھا ہےتم سے کچھ نہیں کہنا

tere charchy hain jafa se tere

تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری لوگ مر جائیں بلا سے تیری کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن کسی محرومِ نوا سے تیری اے میرے ابرِ گریزان کب تک راہ تکتے رہیں پیاسے تیرے تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘ وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری

mai kasho khalq se kaam lena

مے کشو، خلق سے کام لینا میرا ساغر زرا تھام لینا اب یہی ہے ہماری صبوحی اشک پینا ترا نام لینا چل، چلا چل، مسافی چلا چل! چل کے منزل پہ آرام لینا کوئی بانکی سی تہمت اٹھانا کوئی نازک سا الزام لینا آج اگر وہ عدم آ ہی جائیں! بے تکلف انہیں تھام لینا

ajj per tum ne mere dil main jagaya hy wo khwaab

آج پھر تم نے میرے دل میں جگایا ہے وہ خواب میں نے جس خواب کو رو رو کے سُلایا تھا ابھی کیا ملا تم کو انہیں پھر سے فروزاں کر کے میں نے دہکے ہوئے شعلوں کو بجُھایا تھا ابھی میں نے کیا کچھ نہیں سوچا تھا کہ جان غزل کہ میں اس شعر کو چاہوں گا، پوجوں گا اپنی ترسی ہوئی آغوش میں تارے بھر کے قصہ مہ تاب تو کیا عرش کو بھی چُھو لوں گا تم نے تب وقت کو ہر زخم کا مرہم سمجھا اور ناسور میرے جدل میں چمکتے بھی رہے لذت تشنہ لبی بھی مجھے شیشوں نے نہ دی محفل عام میں تا دیر چھلکتے بھی رہے اور اب جب نہ کوئی درد نہ حسرت نہ کسک اک لرزتی ہوئی لو کو تہِ داماں نہ کرو تیرگی اور بھی بڑھ جائے گی ویرانے کی میری اُجڑی ہوئی دنیا میں چراغاں نہ کرو

Muttaqi

~~~ متقی ~~~ وہ اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہ رہا تھا - " میں جانتا ہوں اسلم ساجد تمہارا اچھا دوست ہے - لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھاتا - وہ نہایت بدتمیز جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے - ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے - کیا وہ نہیں جانتا کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے - مجھے دیکھو میں تو کسی کی برائی نہیں کرتا از ڈاکٹر اشفاق احمد ایک زخم اور سہی

jany ab kis dais milangy onchi zato waly logh

جانے اب کس دیس ملیں گے اونچی ذاتوں والے لوگ نیک نگاہوں سچے جذبوں کی سوغاتوں والے لوگ پیاس کے صحراؤں میں دھوپ پہن کر پلتے بنجارو پلکوں اوٹ تلاش کرو ، بوجھل برساتوں والے لوگ وقت کی اڑتی دھول میں اپنے نقش گنوائے پھرتے ہیں رم جھم صبحوں ،روشن شاموں ، ریشم راتوں والے لوگ ایک بھکارن ڈھونڈ رہی تھی رات کو جھوٹے چہروں میں اجلے لفظوں ، سچی باتوں کی خیراتوں والے لوگ آنے والی روگ رتوں کا پرسہ دیں ہر لڑکی کو شہنائی کا سرد سمجھہ لیں گر باراتوں والے لوگ ؟ پتھر کوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس ملے محسن روز دعائیں مانگیں زخمی ہاتھوں والے لوگ ...!!

qatal chupte te khabi sang ki dewaar ki beach

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

Chalo ek bar per se ajnabi ban jaye hum dono

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں تعارف روگ بن جائے تو ا س کا بھولنا بہتر تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ناممکن ہو اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ساحر لدھیانوی

Bina gulab to kanty chuba gaya ek shakhs

بنا گلاب تو کانٹے چُبھا گیا اِک شخص ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص عبیداللہ علیم

Sitara machli

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کوئی دانشمند مضمون نگاری کے لئے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا - اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تو اسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا -وہ متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے - یہ جاننے کے لئے وہ تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا -وہ نزدیک پہنچا ت و دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے - نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا - وہ ساحل پر جھکتا ، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا دانش مند اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں پوچھا ، " صبح بہ خیر ! یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ "نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا " ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں " میں سمجھا نہیں - تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو ؟ سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں - میں نے انھیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پ

Buht sajaye te ankhon main khwaab main ne bhi

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی سہے ہیں اُس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی جُدائیوں کی خلش اُس نے بھی ظاہر نہ کی چُھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی دئیے بُجھا کہ سرِ شام سو گیـــا تھا وہ بِتائی سو کہ شبِِ مہتاب میں نے بھی یہی نہیں کہ اس نے مجھے دردِ ہجر دیا جُدائیوں کا دیـــا ہے جواب میں نے بھی کسی نے خون میں تر چُوڑیاں جو بھیجھی ہیں لکھی ہے خونِ جگر سے کتاب میں نے بھی خزاں کا وار بھی کارگر تھا دل پر مگر بہت بچا کر رکھا یہ گُلاب میں نے بھی

Udaas logon se pyar krna koye to seekay

اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے ۔۔ سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔۔ کوئی دیکھائے محبتوں کے سراب مجھکو ۔ ۔ میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے ،۔ کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام لے کر اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پیامبر کوئی امام ِزماں ہی آئے اسیر ِذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ ۔

khwaab nagar hy ankhain koly daik raha hun

خواب نگر ہے آنکھیں کھولے دیکھ رہا ہوں اُس کو اپنی جانب آتے دیکھ رہا ہوں کس کی آہٹ قریہ قریہ پھیل رہی ہے دیواروں کے رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں کون مِرے جادو سے بچ کر جا سکتا ہے! آئینہ ہوں، سب کے چہرے دیکھ رہا ہوں دروازے پر تیز ہواؤں کا پہرا ہے گھر کے اندر چُپ کے سائے دیکھ رہا ہوں جیسے میرا چہرا میرے دُشمن کا ہو آئینے میں خود کو ایسے دیکھ رہا ہوں منظر منظر ویرانی نے جال تنے ہیں گلشن گلشن بِکھرے پتے دیکھ رہا ہوں منزل منزل ہَول میں ڈُوبی آوازیں ہیں رستہ رستہ خوف کے پہرے دیکھ رہا ہوں شہرِ سنگدلاں میں امجد ہر رستے پر آوازوں کے پتھر چلتے دیکھ رہا ہوں امجد اسلام امجد

urdu ka janaza hy zara dhoom se nikly

ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺎﻥ ﺣﺰﯾﮟ ﺧﻄﺮﮦ ﻣﻮﮨﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺎﻟﮧ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﯾﺪﮦ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺷﮑﻮﮦ ﻟﺐ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻣﺮﮒ ﺳﺒﮏ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮔﺮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺷﺎﻣﻞ ﺍﺭﺑﺎﺏ ﻋﺰﺍ ﺷﺎﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﭩﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺳﻼﻑ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻣﯿﺖ ﻏﻢ ﺩﮨﻠﯽ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﮮ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﻧﻘﺶ ﺑﺪﯾﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺍﮮ ﻗﻠﻌﮧ ﺷﺎﮨﯽ ! ﯾﮧ ﺍﻟﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﻧﮧ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﮮ ﺧﺎﮎ ﺍﻭﺩﮪ !ﻓﺎﺋﯿﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﺡ ﺳﺘﻢ ﺳﮯ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺼﺮ ﻭ ﻋﺮﺏ ﻭ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﮧ ﻭﻟﯽ ﮐﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﺳﻮﺩﺍ ﺩﻓﻨﺎﺋﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺼﺤﻔﯽ ﻭ ﻧﺎﺳﺦ ﻭ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﯾﮧ ﻓﺎﻝ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﻨﻈﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺑﺪﺫﻭﻕ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺳﮯ ﮔﻮ ﺫﻭﻕ ﮨﯿﮟ ﺭﻧﺠﻮﺭ ﺍﺭﺩﻭﺋﮯ ﻣﻌﻠﯽٰ ﮐﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﺳﺮ ﻗﺒﺮ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﻣﻐﻔﻮﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺩﻝ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﺛﯿﮧ ﺧﻮﺍﮞ ﻗﻮﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮐﮧ ﺍﻧﯿﺲ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﻣﺮﺛﯿﮧ ﻏﻢ ﺟﻨﺖ ﺳﮯ ﺩﺑﯿﺮ ﺁ ﮐﮯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﻧﻮﺣﮧ ﻣﺎﺗﻢ

tujay es qadar hain shekayatain

’تُجھے اس قدر ہیں شکایتیں، کبھی سُن لے میری حکایتیں۔ تُجھے گر نہ کوئی ملال ھو، میں بھی ایک تُجھ سے گلہ کروں؟ نہیں اور کُچھ بھی جواب اب میرے پاس تیرے سوال کا۔ تُو کرے گا کیسے یقیں میرا، مُجھے تو بتا دے میں کیا کروں؟ یہ جو بھولنے کا سوال ھے، میری جان یہ بھی کمال ھے۔ تُو نمازِ عشق ھے جانِ جاں، تُجھے رات و دن میں ادا کروں۔ تیرا پیار تیری محبتیں، میری زندگی کی عبادتیں۔ جو ھو جسم و جاں میں رواں دواں، اُسے کیسے خود سے جُدا کروں؟ تُو ھے دل میں، تُو ھی نظر میں ھے، تُو ھے شام تُو ھی سحر میں ھے۔ جو نجات چاھوں حیات سے، تُجھے بھولنے کی دعا کروں۔‘‘

2 ghoray

دو سیانے آدمی دو گھوڑے خریدتے ہیں دونوں نے سوچا کہ کیوں نہ گھوڑوں پر نشانی لگا لی جائے تا کہ یہ پتا چل سکے کہ تیرا کونسا ہے اور میرا کونسا ہے۔ پہلے نے ایسا کیا کہ رات کو اپنے گھوڑے کی دُم کاٹ لی۔ جب صبح اُٹھا تو دوسرے گھوڑے کی بھی دُم کٹی ہوئی تھی۔ پریشان ہو کر اگلی رات اُس نے اپنے گھوڑے کا دایاں کان کاٹ لیا۔ جب اُس صبح اٹھا تو دوسرے گھوڑے کا بھی دایاں کان نہیں تھا۔ پھر پریشان ہو کر گھوڑے کا بایاں کان بھی کٹ دیا صبح دیکھا تو پھر مایوس ہوا کہ دوسرے کا بایاں کان بھی نہیں تھا دونوں نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ کیوں نہ گھوڑوں کی پیمائش کی جائے بات طے ہو گئی اگلے دن دونوں نے گھوڑوں کی پیمائش کی اور نتیجہ یہ نکلا: کہ جو سفید گھوڑا ہے وہ کالے سے ایک انچ بڑا ہے

shaero dard lekte raho

شاعرو ! درد لکھتے رھو" روح کو سرد لکھتے رھو شاعرو! درد لکھتے رھو آنسوؤں کو ستارہ لکھو خواب کو اک اشارہ لکھو عشق میں سب گوارہ لکھو دل کی قسمت خسارہ لکھو رتجگے استعارہ لکھو وقت کیسے گزارا لکھو رات کو بے سہارا لکھو کس نے کس کو پکارا لکھو چاند ھے زرد لکھتے رھو شاعرو ! درد لکھتے رھو

guzar rahe hain shab o roz tum nahi aty

::::: انتظار :::::: گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری اداس آنکھوں تری دید کو ترستی ہیں بہارِ حسن ، پہ پابندیِ جفا کب تک؟ یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟ قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں غلط تھا دعویِ صبر و شکیب، آ جاؤ قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں فیض احمد فیض

zindagi

زندگی کے جوازتلاش نہیں کیے جاتے صرف زندہ رہا جاتا ہے زندگی گذارتے چلے جاؤ جواز مل جائے گا ۔ اگر آپ کو کسی طرف سے کوئی محبت نہ ملے تو مایوس نہ ہو ، آپ خود ہی کسی سے محبت کرو ۔ کوئی با وفا نہ ملے تو کسی بے وفا سے ہی سہی ۔ محبت کرنے والا زندگی کو جواز عطا فرماتا ہے زندگی نے آپ کو اپنا جواز نہیں دینا بلکہ آپ نے زندگی کو زندہ رہنے کے لیے جواز دینا ہے ۔ آپ کو انسان نظر نے آئے تو کسی پودے سے پیار کرو۔ اس کی پرورش کرو، اسے آندھیوں سے بچاؤ ، طوفانوں سے بچاؤ، وھوش و طیور سے بچاؤ، تیز دھوپ سے بچاؤ، زیادہ بارشون سے بچاؤ۔ اس کو پالو پروان۔ چڑھاؤ۔ پھل کھانے والے کوئی اور ہوں ، تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں ۔ کچھ نہیں تو یہی درخت کسی مسافر کو دو گھڑی سایا ہی عطا کرے گا۔ کچھ نہیں تو اس کی لکڑی کسی غریب کی سردی گذارنے کے کام آئے گی۔ آپ کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ آپ کو زندہ رہنے کا جواز اور ثواب مل جائے گا ۔اگر آپ کی نگاہ بلند ہونے سے قاصر ہے، تو اپنے پاؤں کے پاس دیکھو۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ کی توّجہ کی محتاج ہوگی۔ کچھ نہیں تو محبت کا مارا ہوا کتا ہی آپ کے لیے زندہ رہنے کا جواز مہیا کرے گا ۔ (ح

kin lafzon main itni karwi itni kaseeli baat lekon

کن لفظوں میں اتنی کڑوی، اتنی کسیلی بات لکھوں شہر کی میں تہذیب نبھاؤں، یا اپنے حالات لکھوں غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو، جشن لکھوں کیا ماتم کو جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا اُن کو بارات لکھوں کیسے لکھوں میں چاند کے قصے، کیسے لکھوں میں پھول کی بات ریت اُڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات لکھوں کس کس کی آنکھوں میں دیکھے میں نے زہر بجھے خنجر خود سے بھی جو میں نے چھپائے کیسے وہ صدمات لکھوں تخت کی خواہش، لُوٹ کی لالچ، کمزوروں پر ظلم کا شوق لیکن اُن کا فرمانا ہے میں اُن کو جذبات لکھوں قاتل بھی مقتول بھی دونوں نام خدا کا لیتے تھے کوئی خدا ہے تو وہ کہاں تھا، میری کیا اوقات لکھوں اپنی اپنی تاریکی کو لوگ اُجالا کہتے ہیں تاریکی کے نام لکھوں تو قومیں، فرقے، ذات لکھوں جانے یہ کیسا دور ہے جس میں یہ جرآت بھی مشکل ہے دن ہو اگر تو اُس کو لکھوں دن، رات اگر ہو رات لکھوں

tumhy bhi khabar hoghi

تمہیں بھی خبر ہوگی کہ دریا پاس بہتے ہوں توپانی اچھا لگتا ہے کناروں پر جڑی مٹی سے پوچھو روگ چاہت کا کہ اس پانی کی چاہت میں ‌کناروں سے اکھڑکر اجنبی دیسوں میں جانا کتنا مشکل ہے کنارا پھر نہیں‌ملتا تمہیں بس اتنا لکھنا ہے یہاں جو بھی بچھڑ جائے دوبارہ پھر نہیں‌ملتا

ghrani ki zanjeer pawoon main hay

گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں یہ لہجہ میں سرائے کے بولتے ہیں ہے غارت گری اہل ایماں کا شیوہ بھلایا شیاطین نے قرآں کا شیوہ اٹھو نوجوانو! وطن کو بچاؤ! شراروں سے حد چمن کو بچاؤ ساغر صدیقی

urdu ka janaza hy zara dhoom se nikly

ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺎﻥ ﺣﺰﯾﮟ ﺧﻄﺮﮦ ﻣﻮﮨﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺎﻟﮧ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﯾﺪﮦ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺷﮑﻮﮦ ﻟﺐ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻣﺮﮒ ﺳﺒﮏ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮔﺮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺷﺎﻣﻞ ﺍﺭﺑﺎﺏ ﻋﺰﺍ ﺷﺎﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﭩﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺍﺳﻼﻑ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻣﯿﺖ ﻏﻢ ﺩﮨﻠﯽ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﮮ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﻧﻘﺶ ﺑﺪﯾﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺍﮮ ﻗﻠﻌﮧ ﺷﺎﮨﯽ ! ﯾﮧ ﺍﻟﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﻧﮧ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﮮ ﺧﺎﮎ ﺍﻭﺩﮪ !ﻓﺎﺋﯿﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﺡ ﺳﺘﻢ ﺳﮯ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺼﺮ ﻭ ﻋﺮﺏ ﻭ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﮧ ﻭﻟﯽ ﮐﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﺳﻮﺩﺍ ﺩﻓﻨﺎﺋﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺼﺤﻔﯽ ﻭ ﻧﺎﺳﺦ ﻭ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﯾﮧ ﻓﺎﻝ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﻨﻈﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺑﺪﺫﻭﻕ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺳﮯ ﮔﻮ ﺫﻭﻕ ﮨﯿﮟ ﺭﻧﺠﻮﺭ ﺍﺭﺩﻭﺋﮯ ﻣﻌﻠﯽٰ ﮐﮯ ﻧﮧ ﻣﺎﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﺳﺮ ﻗﺒﺮ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﻣﻐﻔﻮﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺩﻝ ﻏﺎﻟﺐ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﺛﯿﮧ ﺧﻮﺍﮞ ﻗﻮﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮐﮧ ﺍﻧﯿﺲ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﻣﺮﺛﯿﮧ ﻏﻢ ﺟﻨﺖ ﺳﮯ ﺩﺑﯿﺮ ﺁ ﮐﮯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﻧﻮﺣﮧ ﻣﺎﺗﻢ

laghrishon se mawara tu bhi nahi main bhi nahi

لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں تو جفا کی میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں تو مجھے میں تجھے الزام دھرتا ہوں اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ ایک دوسرے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں محسن نقوی

Naukri

مالکن :(خانسامہ سے) تم سے کتنی بار کہا ہے کہ صاحب کی نوکری ختم ہو گئی ہے اس لئے اب مرغی نہیں صرف دال پکے گی مگر تم مرغی اور دال دونوں پکا رہے ہو؟ خانساماں : بیگم صاحبہ! دال آپ کے لئے اور مرغی اپنے لئے پکار رہا ہوں نوکری صاحب کی ختم ہوئی ہے میری نہیں۔

kaheen ishq ki daki ibtida

کہیں عشق کی دیکھی ابتدا کہیں عشق کی دیکھی انتہا کہیں عشق سولی پی چڑھ گیا کہیں عشق کا نیزے پہ سر گیا کہیں عشق سیف خدا بنا کہیں عشق شیر خدا بنا کہیں عشق طور پے دیدار ہے کہیں عشق ذبح کو تیار ہے کہیں عشق آنکھوں کا نور ہے کہیں عشق کوہ طور ہے کہیں عشق تو ہی تو ہوا کہیں عشق الله ہو ہوا

Khatoon

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں‌ جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔ مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں‌ کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔ خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔ میری پہلے خواہش ہے کہ میں‌ دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔ دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شو

ye kamyabia izzat ye naam tum se hay

یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تـُـم سے ہــے خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے تمھارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب میری وجود کا سارا نظام ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے ہے کہاں بساط جہاں اور میں کمسن و نادان یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے . . . !

Muhabbat kya hote hay

محبّت کیا ہوتی ہے? محبّت کیا ہوتی ہے ".....سلطان آدم ابھی شاہ پری کے اس انتہایی غیر متوقع سوال سے پیدا ہونے والی خاموشی کے سایوں میں سے اپنے لئے راستہ بنا نے کی کوشش کر ہی رہا تھا کے ایک پرسرار آواز کے ساتھ کھڑکی کے شیشے سے ٹکرانے والی ہوا گزیدہ ابابیل نے کمرے کی ہر شے کو یکدم اپنے احساس کی گرفت میں لے لیا - سلطان آدم، شاہ پری، گلدانو میں سجے پھول ، جنوبی دیوار پی لگی پینٹنگ میں سمندری طوفان میں گھری ہویی کشتی ، آتشدان میں سرگوشیاں کرتی آگ، سب کچھ ہی کھڑکی کے شیشے پر ابابیل کے بارش سے بھیگتے عکس کی رازداری کا حصہ بن گیا تھا. طوفان باد و باران میں "محبّت کیا ہوتی ہے" کے سوالیہ دھاگے میں الجھی ہویی زخمی ابابیل کو ایک ناقابل ے فراموش لمحے میں ڈھلتے ہوۓ محسوس کر کے وہ بولا " محبّت کسی طوفانی موسم میں ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے " یہی محبّت ہے " سلطان آدم نے ابابیل کی پر چھایوں میں شاہ پری کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی - فنا ہوجا نا- لمبی اڑان کے بعد اپنی طرف واپس لوٹ آنا اپنے آپ کو پہچان لینا- سفر کی انتہا پر مکمل آزادی اور پھر اپنے عکس

ALLAH se taluq

اللہ سے تعلق تو ایسے ہونا چاہئے جیسے ماں سے ہوتا ہے – تھک جاؤ تو اس کی گود میں سر رکھ دو – پریشانی ہو تو اس کی آغوش میں سر رکھ کر کہو مجھے تھپک ماں – تیری تھپک میں پتا نہیں کیا جادو ہے کے سارے دکھ دور ہوجاتے ہے – ممتاز مفتی کی کتاب تلاش سے اقتباس

koye naye choot per se kao udaas logo

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو

aisy umeed ka bharam toota

ایسے امید کا بھرم ٹوٹا جیسے سب سے بڑا صنم ٹوٹا دل کی فطرت میں تھی لچک کتنی ٹوٹا سو بار پھر بھی کم ٹوٹا تیرے نزدیک میرا پیمانہ میرے نزدیک جام جم ٹوٹا دیر کا بھی حرم محافظ تھا دیر ثابت رہا حرم ٹوٹا شور ماتم ہے کیوں چمن میں بپا کیا؟ کہاں؟ کس گھڑی؟ عدم ٹوٹا عبدالحمید عدم