Skip to main content

Posts

Showing posts from July, 2013

Physics aur dait

ایک چھوٹی سی کہانی  ایک دفعہ ایک لڑکی نے لڑکے سے پوچھا " جب ھم وزن ، بلندی ، طاقت ، سپیڈ ، فاصلہ وغیرہ وغیرہ کی پیمائش کر سکتے ھیں تو آخر محبت ، بھروسہ اور دوستی کی پیمائش کیوں نہیں کی جا سکتی ؟ " لڑکے نے کچھ دیر سوچا اور لڑکی کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور اس کی گہری جھیل سی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا  --- --۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ دیکھ جانو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انج چولاں نہ مار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈیٹ پے آیا ھوں ۔ فزکس کا پیپر دینے نہی ں

Intezaar

انتظار ایک صاحب نے اپنے گھر کی اوپر والی منزل ایک فوجی جوان کو کرائے پر دی، اس گھر کی چھت لکڑی کی تھی اس وجہ سے فوجی کے چلنے پھرنے کی آوازوں سے انکا ذہنی سکون درہم برہم ہونے لگا جس پر انہوں نے اس سے شکائت کی، فوجی جوان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ وہ سارا دن باہر رہے گا اور صرف رات کو سونے کےلیئے گھر آیا کرے گا تاکہ آپ لوگوں کے آرام اور سکون میں خلل نہ پڑے، اس معاہدے کے بعد کچھ یوں ہوا کہ فوجی  صاحب رات کو دیر سے آتے اور بستر پر بیٹھ کر اپنے بھاری بھرکم بوٹ اتار کر دور کونے میں پھینک دیتے، جسکی وجہ سے سوئے ہوئے مالک مکان کی آنکھ کھل جاتی اور پھر کافی دیر خوار ہونے کے بعد دوبارہ نیند آیا کرتی۔ ایک مرتبہ پھر ان فوجی صاحب سے مزاکرات ہوئے تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ وہ بوٹ آرام سے رکھا کریں گے، چنانچہ اس رات جب فوجی جوان واپس گھر آیا تو ایک جوتا اتار کر زور سے کونے میں پھینک دیا،، مگر فوراً معاہدہ یاد آیا کہ جوتے تو آرام کے ساتھ رکھنے تھے،،،،چنانچہ دوسرا جوتا آرام سے رکھ دیا،،،، اگلے دن جب وہ ڈیوٹی پر جانے کے لیئے تیار ہوا تو انکے مالک مکان پوری فی

Moderen nuakarani

مالکن : تم تین دن سے کام پہ نہیں آئی ؟ اور بتایا بہی نہیں؟ نوکرانی :" باجی مینے تو فیس بُک پر سٹیٹس اپڈیٹ کر دیا تھا کہ " آئی ایم گوئنگ ٹو گائوں فار تھڑی ڈیز " صاحب جی نے کمینٹ بہی کیا تھا " مسنگ یو رضیہ".......... .

Khud kushi

خود کشی ۔ ۔ "۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس وقت گائوں کا وہ زمین دار یاد آ رہا ہے جس نے ستر سال کی عمر میں ایک سولہ سال کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ ابھی سہاگ کے جوڑے کا کلف بھی ٹھیک سے نہ ٹوٹا ہوگا وہ حالات پیدا ہو گئے جس میں بعض جلد باز اصحاب قتل کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن آدمی تھا بلا کا دور اندیش۔ بہت کچھ غور خوض اور اپنی طبیعت کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ خود کشی نسبتاً آسان رہے گی۔ قتل میں بڑا کھڑآگ ہے ۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں ریل اور بندوق کا غلط استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ اس لیے غیور حضرات کو کنویں جھانکنا پڑتے تھے۔ لیکن ان دنوں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور کنویں کا پانی ایسا ٹھنڈا برف ہو رہا تھا کہ غصے میں کوئی آدمی کود پڑے تو چھن سے آواز پیدا ہو۔ لہٰذا زمین دار نے ایک روئی کا فرغل اور دو موٹے موٹے لحاف اوڑھ کر کنویں میں چھلانگ لگائی اور آخر انھی لحافوں نے اسے نہ صرف سردی سے بلکہ حرام موت سے بھی بچا لیا۔" ۔۔۔ چراغ تلے ۔۔۔از مشتاق یو سف ی

Bainss

بھینس کبھی دودھ دیتی ہے لیکن وہ کافی نہیں ہوتا. باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے. تعاون اچھی چیز ہے لیکن پہلے دودھ کو چھان لینا چاہیئے تاکہ مینڈک نکل جائیں بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے، بازار میں ہر جگہ ملتا ہے. آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور. نشانی اس کی یہ ہوتی ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے اس سے زیادہ تفصیل ميں نہ جانا چاہیئے آج کل بھینس انڈے نہیں دیتی. مرزا غالب کے زمانے کی بھینس دیتی تھی. حکیم لوگ پہلے روغنِ گُل بھینس کے انڈے سے نکالا کرتے تھے. پھر دَوا جتنی ہے کُل بھی نکال لیا کرتے تھے. بہت سے امراض کے لئے مفید ثابت ہوتی تھی ابن انشاؑ

Ghadda

ایک بار کلاس میں ایک بچہ گدھا لے آیا  استانی غصے سے بولی:اس کو ادھر کیوں لائے ہو؟؟؟؟؟؟ بچہ معصوم سی صورت بنا کر بولا :مس جی آپ ہی تو کہتی ہیں کہ آپ اب تک کتنے ہی گدھوں کو انسان بنا چکی ہیں:p تو میں یہ سوچ کر اس کو ادھر لے آیا کہ آپ اس کو بھی انسان بنا دیں 

3 khwahishat

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں‌ جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔ مینڈک نے  کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں‌ کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔ خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔ میری پہلے خواہش ہے کہ میں‌ دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔ دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا

Zamana dost hojaye to buht muhtat hojana

ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﮧ ﻧﯿﻨﺪﯾﮟ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺩﮐﮫ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﮦ ﻟﮕﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﺍﺱ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ....... !

Green card

میری عمر پچیس برس تھی جب میں امریکہ آیا تھا۔یہاں آئے ہوئے پندرہ برس ہوگئے ہیں۔ اچھے وہ دن تھے جب قانونی ویزہ نہ ہونے کے باوجود جاب مل جاتی تھی۔گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج کاعام رواج تھا۔ امریکی عورتیں ڈالروں کی لالچ میں معینہ مدت تک طلاق سے منحرف ہع جاتیں ،نوبت جھگڑے تک پہنچتی تو گرین کارڈ منسوخ کروانے کاکہہ کر بلیک میل کرتیں ۔بچے پیدا کرتیں،شوہر کی کمائی پر عیش کرتیں اور اس کی گردن کا طوق بن جاتیں ۔ اس قسم کے واقعات نے مجھے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ ویسے بھی جعلی شادی سے اللہ کا کوف لاحق تھا۔ضمیر والا انسان بڑا خوار ہوتا ہے۔جمعہکی نماز کے لیے مسجد چلا جاتا۔ ایک روز امام مسجد سےجس کا تعلق مصر سے تھا،اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انھوں نے کسی امریکی مسلماں عورت سے حقیقی شادی کے مسائل درپیش ہیں،اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فام قوم کی اکثریت ہے۔انھوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا،جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر ، ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور اسلامی سکول میں جاب کرنے لگی ہے اگر تم اسے سہارا دے دو

Internet pe jo tumhary liye gulnar thi wo main tha

انٹرنیٹ پر جو تمہارے لئے گلنار تھی، وہ میں تھا وہ جو الہڑ سی بقول آپ کے مُٹیار تھی، وہ میں تھا وہ جو آمادہءِ امداد تھے، ہر وقت،وہ تم تھے جس کو پیسوں کی ضرورت تھی، جو نادار تھی،وہ میں تھا تم کو یہ دیکھ کے ممکن ہے پریشانی سی ہو وہ جو معقول سے رشتے کی طلبگار تھی،وہ میں تھا ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﺩﯼ کے فضائل جو بتاتے تھے، وہ تم تھے گھر سے جو بھاگ کے جانے پہ بھی تیار تھی،وہ میں تھا اپنی بیگم کے مظالم پہ جو نالاں تھے، وہ تم تھے جو تسلی تجھے دیتی تھی، جو غمخوار تھی،وہ میں تھا .

Rizzaq

ابو یعقوب اقطع بصری کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حرم شریف میں دس دن تک بھوکا رہا ، مسلسل بھوکا رہنے کی وجہ سے لاغر ہو گیا، خیال آیا کہ مجھے باہر نکلنا چاہئے ، چنانچہ یہ سوچ کر جنگل کی طرف نکلا کہ شاید کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے یہ کمزوری دور ہو سکے ، میں نے جنگل میں ایک شلجم پڑا ہوا دیکھا ،اسے اٹھا لیا لیکن دل میں عجیب سی وحشت ہوئی اور ایسا لگا کہ کوئی کہہ رہا ہو تو دس دن سے بھوکا رہا اور اب اس بھوک  کو سڑے ہوئے شلجم سے مٹا نا چاہتا ہے ؟ میں نے وہ شلجم وہیں پھینک دیا اور حرم شریف میں آکر بیٹھ گیا . تھوڑی دیر بعد ایک عجمی شخص نظر آیا جس کے ہاتھوں میں خوان پوش تھا وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور کہا یہ آپ کیلئے ہے ، میں نے پو چھا آپ نے میری تخصیص کیوں کی ؟ اس نے کہا ہم دس روز سے سمندر میں سفر کر رہے تھے ہماری کشتی طوفان کی زد میں آگئی میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر بسلامت ساحل پر پہنچ گیا تویہ چیزیں حرم کے مجاورین میں سے اس شخص کی نذر کروں گا جو مجھے سب سے پہلے نظر آئیگا .اور آپ ہی پر سب سے پہلے نظر پڑی ہے ، جو خوان اس نے مجھے دیا اس میں مصری حلوہ ، چھلے ہوئے بادام اور برف

Bicylcle

ایک غریب خاندان کے لڑکے نے اپنے باپ سے کہا۔ میرے لئے بائیسکل خرید دیجئے باپ کے لئے بائیسکل خریدنا مشکل تھا۔اس نے ٹال دیا ۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ آخر کار ایک روز باپ نے ڈانٹ کر کہا میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا۔’’ یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔ وہ کچھ دیر تک چپ رہا۔اس کے بعد روتے ہوئے بولا .............. آپ ہی ت و ہمارے باپ ہیں پھر آپ سے نہ کہیں تو کس سے کہیں ............. ’’ اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا ۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا ‘‘ اچھا بیٹے ، اطمینان رکھو۔ میں تم کوضرور بائیسکل دوں گا۔’’ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگلے دن اس نے پیسہ پورا کر کے بیٹے کے لئے نئی بائیسکل خرید دی۔ لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگریہ ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنیزندگی تھی۔جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہو گئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطہ پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے

Honi chahye

شوہر کے پاس کار ہونی چاہیے پیدل تو وہ عقل سے بھی ہیں۔  بندے کو ایماندار ہونا چاہیے اسمارٹ تو فون بھی ہوتے ہیں۔ فون تو سام سنگ ہونا چاہیے فروٹ تو ایپل بھی ہوتا ہے۔ رپلائی ڈھنگ کا ہونا چاہیے ہمم تو بھینس بھی کرتی ہے۔ انسان کو بات کرنے سے پہلے سلام کرنا چاہیے ہائے ہائے تو مریض بھی کرتے ہیں۔  یونیورسٹی تو پنجاب یونیورسٹی ہونی چاہیے آکسفورڈ تو ڈکشنری بھی ہوتی ہے۔  ڈگری انجینئرنگ کی ہونی چاہئے میڈیکل تو اسٹور بھی ہوتے ہیں۔ بندہ چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہونا چاہیے ڈاکٹر تو ٹوتھ پیسٹ بھی ہوتا ہے۔ دوست خراب ہونے چاہیے اچھے تو داغ ہوتے ہیں ۔

Makhki

ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮭﯽ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ ۔ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ، ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺫﻭﻕِ ﮐﺸﺘﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﯽ ﯾﮧ ﻣﮑﮭﯽ ﮔﻨﺪ ﭘﮭﯿﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﯾﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﯽ ﯾﮧ ﻣﮑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ؟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ، ﯾﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻟﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﻧﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮔﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺁﭖ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﮕﮧ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﯽ ﮔﯽ ۔ ﺍﺷﻔﺎﻕ ﺍﺣﻤﺪ

Duniya ...........

ایک آدمی اپنے سامنے اخبارات رکھے اپنے پسندیدہ کالم پڑھ رہا تھا اس کا چھوٹا بیٹا آتا ہے اُس کے ہاتھ میں دنیا کا نقشہ ہے، وہ دنیا میں بسنے والے ممالک کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے باپ چاہتا ہے کہ اُس کا بیٹا چند لمحوں کے لیے اُسے اکیلا چھوڑ دے تاکہ وہ اپنے کالم پڑھ لے لیکن بچہ ٹلنے والا نہیں تھا والد کو غصہ آتا ہے اُس نے نقشہ پکڑا اورپھاڑ دیا،بچے نے رونا اور چیخنا چلانا شروع کردیا،باپ کے لیے پڑھنا مشکل ہو گیا باپ کو بچے کو چپ کرانے کی تدبیر سوجھی اور کہنے لگا : تم یہ نقشہ صحیح کر کے لے آؤ جیسے پہلے تھا میں تمہیں سب ممالک کے بارے میں بتادوں گا باپ نے سوچا پھٹے ہوئے نقشے کو دوبارہٹھیک کرنا ناممکن کام ہے اور اس طرحاُسے اخبار پڑھنے کا موقعہ مل جائے گا کچھ ہی منٹ بعد لڑکا نقشہ ہاتھ میں لیے دوبارہ آن ٹپکا چلیں ابو مجھے ان ممالک کے بارے میں بتائیں یہ کہاں ہیں باپ حیران ہو کر : بیٹا تم نے اتنی جلدی نقشہ ٹھیک کیسے کر لیا؟ لڑکا مسکراتے ہوئے : ابو نقشے کے دوسری طرف ایک انسان کی تصویر تھی میں نے انسان کو ٹھیک کیا تو ساری دُنیا ٹھیک ہو گئی ۔ ۔

Insaniat

مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس

Beti

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﮨﺮ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﯾﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮕﺮﮮ ﭼﮫ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﮭﺮ ﻭﻻﺩﺕ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﮈﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮩﮑﺎﯾﺎ ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺭﺩﺍﮦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻃﻼﻕ ﺩﮮ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺞ ﻓﮩﻤﯽ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﮭﻼ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻗﺼﻮﺭ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﻭﻏﺮﯾﺐ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﮩﻨﻢ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﮯﮔﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ۔ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﮌ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺭﮐﺎﻭ ﭦ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺟﺲ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﺗﯽ

Badshah ka khwaab

کہتے ہیں کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا؛ ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔ مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا؛ بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔ بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔ دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سُنا اور کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔ تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟ بادشاہ نے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔ مفسر نے کہا؛ بادشاہ سلامت تو پھر آپکو مُبار ک

Badshah aur darwaish

ایک بادشا ہ کو کسی درویش سے ملاقات کا اتفا ق ہو ا، باد شاہ نے کہا مجھ سے کچھ طلب کرو،درویش نے جواب دیا ، میں اپنے غلاموں کے غلام سے کچھ طلب نہیں کر تا ، بادشاہ نے کہا یہ کیسے؟ درویش نے کہا میرے دو غلام ہیں جو تیرے مالک ہیں، حر ص اور آ رزو۔۔ کشف المحجوب سے حکایت

Pardasi

سب سے زیادہ حسرت ناک حالت ان پردیسیوں کی ہے،  جو کسبِ معاش کے لیے باہر گئے۔ ان کے عزیز ان کے انتظار میں یہاں پردیسی ہیں، وہ وہاں پردیسی۔ دولت کی ہوس نے جدائیاں پیدا کر دیں۔ ۔ ۔خواہشات کا پھیلاو، نمائش کی خواہش، آرائش کی تمنا نے مجبور کر دیا کہ اپنے محبوب بیٹے، محبوب خاوند کو وطن سے باہر بھیجا جائے۔ ۔ اور وہ بیچارے، یادوں کے سہارے دن کاٹ رہے ہیں۔ اوپر سے گزرنے والے طیاروں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے  ہیں کہ یہ جہاز وطن جا رہے ہیں اور وہ مجبور ہیں۔ ۔ ۔ وطن میں عزت کی زندگی گزارنے کی خاطر پردیس میں ذلت برداشت کر رہے ہیں۔ ۔ ۔  ہم کیوں نہیں سمجھتے؟ دولت کی تمنا دلبروں کو دور کر دیتی ہے۔ انسان غریبی کا لقمہ نہیں کھاتا اور جدائی کا زہر پی لیتا ہے۔  کیوں نہ بلایا جائے ان بیچاروں کو۔ ۔ ۔  غریبی کے اندیشے سے نکل کر تم اور بہت سے اندیشوں میں مبتلا ہو گئے ہو۔  تم ایک دوسرے کی یاد میں روتے ہو۔ ۔ ۔ چند سکوں کے عوض اتنا بڑا عذاب۔ ۔ ۔  جدائی کا عذاب۔ ۔ ۔ بلا لو پردیسیوں کو دیس میں واپس۔ ۔ ۔ (حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ )

Kunwary aur shadi shuda hazraat

کنوارے حضرات۔۔۔۔۔ تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی تاج محل بنانا چاہتا ہوں مگر ممتاز نہیں ملتی عاشق حضرات۔۔۔۔۔ تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی ممتاز مل گیٴ ہے مگر شادی نہیں کرتی شادی شدە حضرات۔۔۔۔۔ تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی تاج محل بنانا چاہتا ہوں مگر ممتاز نہیں مرت ی