Skip to main content

Posts

Showing posts from October, 2013

Mujay tum yaad ate ho

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں کسی مصروفیت کے موڑ پر تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں “مجھے تم یاد آتے ہو“ کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر کسی بستی کی بارونق سڑک پر اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ مری چپ کے کنویں میں آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں اور کنارے سے کوئی بولے تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخو رنجش کھٹکتی ہے تمہاری بےسبب دوری سلگتی ہے یا جب مری آنکھوں کے صحرا میں تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ مقدر کے ستا روں پر زمانوں کے اشاروں پر ادا سی کے کناروں پر کبھی ویران شہروں میں کبھی سنسان رستوں پر کبھی حیران آنکھوں میں کبھی بے جان لمحوں پر مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔ کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔

Mohabbat

ایک شخص سے محبت ، انسان کو کتنا مجبور کر دیتی ہے ۔ میں نے زندگی میں کسی کی پرواہ ہی نہیں کی اور اب اس شخص کی پرواہ کی ہے تو مجھے احساس ہوا ہے کہ محبت کرنے کے بعد بندے کو کتنا جھکنا پڑتا ہے صرف اس خوف سے کہ کہیں دوسرا آپ کو چھوڑ نہ دے ۔ ۔ شہرِ ذات - عمیرہ احمد

Bewaqoof

اس کلاس میں اگر کوئی بےوقوف ہے تو فوراً کھڑا ہو جائے۔" نئی ٹیچر نے کلاس میں داخل ہو کر کہا۔ کافی دیرتک توکوئی کھڑا نہیں ہوا پھرتھوڑی دیر بعد ایک لڑکا جھجکتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ " تم اپنے آپ کو بے وقوف کیوں سمجھتے ہو؟ " ٹیچر نے پوچھا۔ "بات دراصل یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو بے وقوف بلکل نہیں سمجھتا! وہ تو میں صرف اس لیے کھڑا ہو گیا کہ آپ کلاس میں اکیلی کھڑی اچھی نہیں لگ رہی تھیں!" لڑکے نے جواب دیا۔  

Maqbool Hajj

دو حجاج کرام کی آپس میں گفتگو، تھوڑی سی طویل ہے، لیکن پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا وقت ضایع نہیں ہوا۔ حاجی سعید صاحب فریضہ حج ادا کرنے کے بعد وطن واپسی کے لیے ایئرپورٹ پر بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔ ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک اور حاجی صاحب ان کے پاس آ بیٹھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا، نام وغیرہ پوچھا اور انتظار کی کوفت ختم کرنے کے لیے دوسرے حاجی صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ: برادر سعید! میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔ بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر بھی خوب صدقات دیئے اور خیراتیں کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔ سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور مسنون طریقے سے حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: حجا

Double cross

ڈبل کراس ایک کتا جنگل میں راستہ بھٹک گیا، وہ بھی راستہ تلاش کرنے کی سوچ ھی رھا تھا کہ شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ اُس نے سوچا لو بھئی آج تو موت آئی ھی آئی۔ اور دوسرے ھی لمحے دور سے اُسے شیر اپنی طرف آتا نظر آیا۔ کتا گھبراھٹ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ اچانک اُس کی نظر ایک مرے ھوئے جانور کے دھانچے پر پڑی۔ اُس نے جلدی سے اُس میں سے ایک ھڈی نکالی اور شیر کی طرف پشت کر کے بیٹھ گیا، اسی اثنا میں شیر اُس کے انتہائی قریب آگیا، تبھی وہ شیر کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ھوئے بناوٹی غرور میں بولا۔۔۔"یار! آج شیر کا شکار کر کے بہت مزہ آیا، لیکن ابھی بھوک ختم نہیں ھوئی، اگر ایک شیر اور کھانے کو مل جائے تو مزہ دوبالا ھو جائے۔۔۔!!" شیر نے جب یہ سنا اور دیکھا تو دُم دبا کے بھاگ گیا۔ یہ سارا تماشہ ایک بندر اُوپر درخت پر بیٹھ کے دیکھ رھا تھا، اُس کے دل میں آیا کہ یہ اچھا موقع شیر کو سب سچ سچ بتانے کا اور کتے کو سبق سکھانے کا، کتے نے جب اُسے جاتے دیکھا تو بہت روکا لیکن وہ نہیں رکا۔۔! بندر شیر کے پاس گیا اور بولا۔۔۔"عالم پناہ! اُس کتے نے آپ کو بیوقوف بنایا اور آپ

Zuban ki pelaye hoye museebatain

زبان کی پھیلائی ہوئی مصیبتیں ------------------------------ ---- اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصبیتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے۔ زیادہ بولنے والا مجبور ہوتا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ملا کر بولے۔   آواز انسان کو دوسروں سے منسلک کرتی ہے اور خاموشی انسان کا دوسروں سے تعارف کرواتی ہے۔ زندگی سر بستہ راز ہے اور راز ہمیشہ خاموش ہوتا ہے اور اگر خاموش نہ ہو تو راز نہیں رہتا۔ خلیل جبران

Urdu ki abyari

اردو کی آبیاری, قائداعظم نے فرمایا برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے اردو کی آبیاری کی ہے، ایک ایسی زبان جو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسی زبان جو اسلامی تہذیب و تمدن کی بہترین جہات اور روایات کی کسی بھی صوبائی زبان سے زیادہ عکاسی کرتی ہے۔ یہ دوسرے مسلم ممالک کی زبانوں سے نزدیک تر بھی ہے۔ ( ڈھاکہ یونیورسٹی،24مارچ، 1948ئ)

Apna ullo kahee nahi geya

اپنا الّو کہیں نہیں گیا  ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا کہ ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سوداگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روز نامچے میں لکھا، "بادشاہ الّو ہے۔" کس نے بادشاہ کو اسکی یہ حرکت بتا دی اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شخص کہنے لگا، "حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔" بادشاہ نے کہا، "اور اگر وہ واپس آ گیا تو؟" اس شخص نے فوراً جواب دیا، "تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس شخص کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا

Hamare dil main kaheen dard hay nahi hay na?

ڈاکٹر افتخار مغل صاحب کی آخری غزل جس کے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ، کمنٹس کا انتظار رہے گا  ہمارے دل میں کہیں درد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ ہمارا چہرہ بھلا زرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ سُنا ہے آدمی مر سکتا ہے بچھڑتے ہوئے   ہمارا ہاتھ چھوؤ ، سرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ سُنا ہے ہجر میں چہروں پہ دھول اڑتی ہے   ہمارے رخ پہ کہیں گرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ کوئی دلوں کے معالج ، کوئی محمد بخش تمام شہر میں کوئی مرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ وہی ہے درد کا درماں بھی افتخار مغل کہیں قریب وہ بے درد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟

Oont

ایک عقل مند آدمی کسی جنگل میں پھر رہا تھا ۔اس نے دو آدمیوں کو دیکھا جو یہاں وہاں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔اس آدمی نے اُن سے پوچھا ”کیا تمہارا اونٹ گم ہو گیا ہے ؟“ایک آدمی نے جواب دیا ”ہاں بھائی !ہمارا اونٹ گم ہوگیا ہے۔ہم بہت دیر سے اسے ڈھونڈ رہے ہیں مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے ۔کیا تمہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہے ؟“اس آدمی نے پوچھا ۔”کیا تمہارے اونٹ کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئی تھی ؟“دونوں آدمی فوراً بولے ۔”ہاں ،ہاں !“آدمی نے پوچھا ”کیا وہ بائیں پاؤں سے لنگڑا ہے ؟“آدمی بولے ”ہاں وہ لنگڑا ہے۔“آدمی نے پھر سے سوال کیا ”کیا اس کا کوئی دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے ؟“آدمیوں نے کہا ”ہاں ....اس کا ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے ۔“اس آدمی نے آخر میں پوچھا ”کیا اس پر ایک طرف شہد اور دوسری طرف گیہوں لدے ہوئے ہیں ؟“دونوں آدمیوں نے جواب دیا ”ہاں !بالکل ٹھیک ۔وہی ہمارا اونٹ ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ تم نے اسے دیکھا ہے۔اب بتاو ¿ کہ وہ کہاں ہے ؟“ عقل مند آدمی نے جواب دیا ”میں نے کوئی اونٹ نہیں دیکھا ۔“اس کا یہ جواب سن کر وہ دونوں آدمی اس سے لڑنے لگے ۔”کم بخت چور ....تم نے ضرور ہمارا اونٹ  دیکھا ہے ورنہ تمہیں ان ساری

Khuloos

بعض لوگ خلوص کی تلاش میں بہتے دریاؤں اور بھرے چشموں کی طرف چلتے ہیں کہ شاید خلوص پانی کی وسعتوں میں مل جائے..........لیکن اتنا دور جانے کی ضرورت نہیں ہوتی...بلکہ اپنے قریب آئیے,اتنا قریب کہ خلوص کے چراغ اپنی ذات کے اندر نظر آ سکیں...........آپ کے دل میں دوسروں کے لیے خلوص ہو گا تو آپ کو بھی خلوص ملے گا۔  خلیل جبران -

Kutte ki 10 khaslatain

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کتے میں دس بڑی بڑی خصلتیں موجود ہیں۔ 1۔ و ہ بھوکا رہتا ہے، یہ آداب صالحین میں سے ہے۔ 2۔ تھوڑی چیز پر قناعت کرتا ہے، یہ علامت صابرین میں سے ہے۔ 3۔ اس کا کوئی مکان نہیں ہوتا یہ علامت متوکلین میں سے ہے۔ 4۔ وہ رات کو بہت کم سوتا ہے، یہ صفت شب بیداراں اور علامت محسنین میں سے ہے۔ 5 ۔ جب مرتا ہے تو کوئی میراث نہیں چھوڑتا، یہ صفت زاھدین میں سے ہے۔ 6۔ یہ اپنے مالک کو نہیں چھوڑتا اگرچہ وہ اس پر جفا کرے، اس کو مارے ۔ یہ صفت مریدین صادقین میں سے ہے۔ 7۔ ادنیٰ جگہ پر راضی رہتا ہے، یہ علامت متواصفین میں سے ہے۔ 8۔ اس کی رہائش پر کوئی غالب ہو جاتا ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے اور دوسری جگہ چلا جاتا ہے، یہ علامت راضین میں سے ہے۔ 9۔ اس کو ماریں، پھر ٹکرا ڈالیں تو فوراً آجاتا ہے یعنی مار کا کینہ نہیں رکھتا، یہ علامت خاشعین میں سے ہے۔ 10۔ کھانا سامنے رکھا ہوتا ہے، دور بیٹھا ہوا تکتا ہے، یہ علامت مساکین میں سے ہے اور جب کسی مکان سے کوچ کر جاتا ہے تو پھر اس کی طرف التفات نہیں کرتا یہ علامت مخرونین سے ہے۔ محتر م قارئین!   کتا اگرچہ نجس

Riksha driver

▀••▄•• چھوٹی بات، بڑا سبق ••▄••▀ رکشہ شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتا جا رہا تھا کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک رکشہ کے سامنے آ گئی ۔ رکشہ ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے رکشہ کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا ۔ بجائے اس کے کہ گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ رکشہ ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا کیونکہ غلطی اس کار والے کی تھی لیکن رکشہ ڈرائیور نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا ۔ میں نے رکشہ ڈرائیور سے کہا “ انکل اُس نے تو آپکے رکشے کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور آپ نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا ؟” رکشہ ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں اور کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں

Narm bistar

بادشاہ سلامت شکار کو گئے ہوئے تھے۔ پیچھے سے کنیز بادشاہ کے بستر پر آرام سے لیٹ گئی۔ بادشاہ واپس آیا تو کنیز کو بستر پر لیٹا دیکھ کر بڑے غصے میں آ گیا، اور غصے میں اس نے کنیز کو مارنا شروع کر دیا۔ کنیز پہلے تو بہت روئی، پھر ہنسنے لگ گئی۔ بادشاہ نے پوچھا: "تو روئی کیوں؟" تو اس نے کہا: "مار بہت پڑی۔ " اب ہنستی کیوں ہے ؟" "میں سوچ رہی ہوں ظلِ سبحانی، کہ میں تو کچھ دیر اس بستر پر سوئی تو مجھے اتنی مار پڑی ہے۔ آپ تو روزانہ سوتے ہیں۔ آپ کو کتنی مار پڑے گی ۔۔۔" یہ لطیفہ نہیں مقام عبرت ہے ان لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے لیے جو اپنے عیش و آرام کے آگے بھول چکے ہیں کہ لوٹ کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے

Wo ek shakhs janti ho tum

وہ اک شخص.. جانتی ہو تم ؟ وہی ، جو بے توجہی کے سبب ہمیشہ بے اصول رہتا تھا وہ اک شخص جانتی ہو تم ؟ وہ جسے نیند بہت پیاری تھی وہ جو ایک خواب کے اثر میں تھا   وہ جو لا علم رہا منزل سے   وہی جو عمر بھر سفر میں تھا   وہ اک شخص ,جانتی ہو تم ؟ جس نے خوشبو کی تمنا کی تھی ، اور روندھے گلاب پائے تھے جس نے اپنی ہی نیکیوں کے سبب ، رفتہ رفتہ عذاب پائے تھے وہ اک شخص, جانتی ہو تم ؟ وہ جس کا دین ، بس محبت تھا وہ جس کا ایمان وفائیں تھیں وہ جس کی سوچ بھی پریشان تھی وہ جس کے لب پر فقط دعائیں تھیں وہی ، الجھی ہوئی بے چین سی باتوں والا محبتوں سے ڈر گیا کل شب ہجر کے دکھ کو سہتے سہتے ، وہ شخص مر گیا کل شب آؤ اب لاش اٹھاؤ اس کی ، وہ جو تیرے اثر میں رہتا تھا آؤ اب سوگ مناؤ اس کا ، وہ جو سورج کو قمر کہتا تھا محبتوں سے ، ڈر گیا کل شب   وہ شخص مر گیا کل شب

Tumhari zindagi main

تمہاری زندگی میں میں کہاں پر ہوں؟ ہوائے صبح میں یا شام کے پہلے ستارے میں جھجھکتی بوندا باندی میں کہ بے حد تیز بارش میں رو پہلی چاندنی میں یا کہ پھر تپتی دوپہروں میں بہت گہرے خیالوں میں کہ بے حد سرسری دُھن میں تمہاری زندگی میں میں کہاں پر ہوں؟ ہجومِ کار سے گھبرا کے ساحل کے کنارے پر کِسی ویک اینڈ کا وقفہ کہ سگرٹ کے تسلسل میں تمہاری انگلیوں کے بیچ کوئی بے ارادہ ریشمیں فرصت؟ کہ جامِ سُرخ سے یکسر تہی اور پھر سے بھر جانے کا خوش آداب لمحہ کہ اِک خوابِ محبت ٹوٹنے اور دُوسرا آغاز ہونے کے کہیں مابین اک بے نام لمحے کی فراغت؟ تمہاری زندگی میں میں کہاں پر ہوں؟

Sub se barhi sakhawat

"سب سے بڑی سخاوت" ایک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا:   ”اے حاتم! کیا سخاوت میں کوئی تجھ سے آگے بڑھا ہے؟ …” حاتم نے جواب دیا: ہاں!… قبیلہ طے کا ایک یتیم بچہ مجھ سے زیادہ سخی نکلا جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دوران سفر میں شب بسری کے لیۓ ان کے گھر گیا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے ایک ذبح کی، اس کا گوشت تیار کیا اور کھانے کیلئے مجھے پیش کر دیا- اس نے کھانے کے لیۓ مجھے جو چیزیں دیں ان میں مغز بھی تھا- میں نے اسے کھایا تو مجھے پسند آیا- میں نے کہا: “واہ سبحان اللہ! کیا خوب ذائقہ ہے” یتیم بچہ فوراً باہر نکل گیا اور ایک ایک کر کے تمام بکریاں میری لا علمی میں اس نے ذبح کر ڈالیں اور سب کے مغز مجھے پیش کیے- جب میں کوچ کرنے لگا تو کیا دیکھا کہ گھر کے ارد گرد ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا ہے- میں نے اس سے کہا: “آپ نے تمام بکریاں کیوں ذبح کیں؟” اس نے کہا: “واہ، سبحان اللہ! … آپ کو میری کوئی چیز اچھی لگے اور میں اس پر بخل کروں، یہ عربوں کیلئے بدترین گالی ہے-” حاتم سے پوچھا گیا: ” بدلے میں آپ نے اسے کیا دیا؟…” انہوں نے کہا: “تین سو سرخ اونٹھنیاں اور پانچ سو بکریا

Karam farma

کرم فرما نیا شادی شدہ جوڑا ہنی مون منانے کے لیئے دور دراز کے ایک صحت افزا پہاڑی مقام پر گیا تو کاؤنٹر پر جانے سے پہلے ہی ہوٹل کے مینجر نے شوہر کا نام رجسٹر میں لکھ لیا۔ بیوی بہت حیران تھی لیکن شوہر سے پوچھ نہ سکی، کچھ دیر کے بعد ویٹر چائے لے کر آیا تو اس وقت شوہر واش روم میں تھا، چنانچہ بیگم صاحبہ نے موقع غنیمت جان کر ویٹر سے پوچھا، تمہارے مینجر کو میرے شوہر کا نام کیسے معلوم ہوا؟ ویٹر نے جوب دیا، بی بی جی،،،، آپکے شوہر ہمارے پرانے کرم فرما ہیں اور ہر سال شادی کے بعد ہنی مون کے دوران ہمارے ہوٹل میں ہی قیام فرماتے ہیں۔

Watan ki yaad

کچھ دن پہلے ایک دوست کا انگلینڈ سے فون آیا بہت اداس لگ رها تھا. وہ چک ہی نہیں تھی لہجے میں جو پاکستان میں مجھ سے بات کرتے ہوئے اسکے لہجے میں ہوا کرتی تھی .. میں نے بھی تنگ کرنے کے لئے پوچه۔ لیا " امى یاد آ رہی ہے يا بھابھی.." تو ہنسنے لگا، یارا نہ بیگم اتنی یاد آتی ہے نہ ہی ماں پر یار یہ پاکستان کیوں اتنا یاد اتا ہے؟؟ یہ کہه کر وہ رونے لگا اور میں کچھ عرصۂ پیچھے چلا گیا جب یہی دوست کہا کرتا تھا " دیکھنا کیسے اس جنگل سے جان چھڑا کر بھاگوں گا میں " آج وہی شخص اس "جنگل" کو یاد کر کے رو رہا تھا .. میری آنکھیں نم ہوگئیں چلو کسی بچے کو ماں کی یاد تو آیئ ... کچھ ایسے راستوں پر ہم چل پڑے ہیں جہاں ہمیں پاکستان کو بھولنا سکھایا جارہا ہے پر انہیں ناکامی ہوگی . ہم ہر معاملے میں ہی ڈھیٹ ہیں اور پاکستان سے محبت کے حوالے سے تو ہماری ڈھٹائی کا کوئی جواب ہی نہیں .. میں جان گیا ہوں ہم میں سے جان تو نکالی جا سکتی ہے پر ایک ہمارا اسلام اور دوسرا پاکستان کوئی ہم میں سے نہیں نکال سکتا. میں جان گیا ہوں کیوں غیر ملکی طاقتیں پاکستان سے خوف زدہ ہیں وہ بھی جانتے

Maa keaue roti hay

اپنی ماں کے بہتے آنسو دیکھ کے اک معصوم سا لڑکا اپنی ماں کو چوم کے بولا پیاری ماں تو کیوں روتی ہے؟ ماں نے اس کا ماتھا چوما ،گلے لگایا،اس کے بالوں کو سہلایا گہری سوچ میں کھو کر بولی ’’کیونکہ میں اک عورت ہوں‘‘ بیٹا بولا،میں تو کچھ بھی سمجھ نہ پایا ماں مجھ کو کُھل کر سمجھاؤ اس کو بھینچ کے ماں یہ بولی ’’بیٹا تم نہ سمجھ سکو گے‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شام ہوئی تو چھوٹا لڑکا،باپ کے پہلو میں جا بیٹھا باپ سے پوچھا’’ماں اکثر کیوں رو دیتی ہے‘‘ باپ نے اس کو غور سے دیکھا ،کچھ چکرایا،پھر بیٹے کو یہ سمجھایا ’’یہ عادت ہے ہر عورت کی،دل کی بات کبھی نہ کہنا فارغ بیٹھ کے روتے رہنا‘‘ باپ کا مُبلغ علم تھا اتنا ،بیٹے کو بتلاتا کیا اس کے سوا سمجھاتا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب بچے نے ہوش سنبھالا علم نے اس کے ذہن و دل کو خوب اجالا اس نے اپنے رب سے پوچھا میرے مالک میرے خالق، آج مجھے اک بات بتا دے الجھن سی ہے اک سلجھا دے اتنی جلدی اتنی جھٹ پٹ ہر عورت کیوں رو دیتی ہے دیکھ کے اس کی ی

Naukheziyan

بکرا عید بھی کمال کی عید ہوتی ہے ۔ ہم نے ایک بکرے والے سے پوچھا کہ " بھائی یہ بکرا کتنے کا ہے ؟ " کہنے لگا " آٹھ ہزار کا " ۔ آٹھ ہزار کا ؟؟ ہم نے حیرت سے کہا " اس میں وی سی آر لگا ہوا ہے " ۔ ہماری بات سن کر اس کا منہ بن گیا ۔ لہٰذا اس نے منہ پھیر لیا ۔ ایک اور بکرے والے سے قیمت پوچھی تو ہمارے کان میں کہنے لگا " صرف سات ہزار " ہم نے بھی اس کے کان میں کہا ۔ " سات سو کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ "۔ اس نے کان میں کہا " آپ کام کیا کرتے ہیں ؟ " ہم نے کان میں کہا " صحافی ہیں "۔ وہ کچھ دیر ہمیں گھورتا رہا اور کان میں بولا " میری مانیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی چھوٹی موٹی مرغی ذبح کر لیں ۔" ہم نے کان میں جواب دیا ۔ " شرع میں مرغی کی قربانی جائز نہیں ۔ مولوی صاحب اعتراض کریں گے " ۔ اس نے سر گوشی کی ۔ " مولوی کو پچیس روپے لگا دو خود ہی مان جائے گا ۔" " لیکن تم بکرا سستا کیوں نہیں دے سکتے ؟ " وہ غصے میں آگیا ۔ تاہم بات