Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2013

Intekhab

امامہ گردن موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔ "مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤ گے"۔ وہ اِس بات پر ہنسا۔ "مجھ پر یقین تھا ۔ ۔ ۔ کیوں؟ میں تو ایک بُرا لڑکا ہوں۔" "مجھے تم پر یقین نہیں تھا ۔ ۔ ۔اللہ پر یقین تھا۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل پڑ گئے۔ "میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے، یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ عمیرہ احمد کے ناول پیر ِکامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اقتباس

Larkion ka badla

لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔ کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔   میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔ اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا،   وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔   میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "شیطانیاں" سے اقتباس

Mere Humdam mere dost

بہت سے دکھ ہماری قسمت میں لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں ملنے ہوتے ہیں۔ بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ چاہے ہمیں جتنی بھی ناگوار لگیں مگر ہمیں انہیں قبول کرنا پڑنا ہے۔ انسان ہر وقت خود پر ترس کھاتا رہے اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ دکھ اس پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر اس کی زندگی میں خوشیاں آتی بھی ہیں تو وہ انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ فرحت اشتیاق کے ناول " میرے ہمدم میرے دوست" سے اقتباس

Duayain

ہماری کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو اگر قبول ہوجائیں تو ہمیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن ہم خدا سے شکوہ کرتے ہیں کے ہماری دعا قبول نہیں کی. بلکہ آپ یہ دعا کریں کہ اللہٰ"ہمیں وہ عطا کر جس میں ہماری بھلائی ہو" ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا ہمیں پھولوں سے بھرا ٹوکرا عطا کرنا چاھتے ہیں اور ہم اک پھول کی ضد لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اقتباس زاویہ سوم

Bhool

ایک شخص نے امام سے عرض کی کہ میں نے کچھ روپے ایک جگہ چھپا کر رکھ دیئے تھے، اب وہ جگہ مجھے یاد نہیں آتی میں کیا کروں؟ امام نے کہا کے یہ کوئی فقہ کا مسلہ تو ہے نہیں جو تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو. جب اس شخص نے زیادہ اسرار کیا تو کہا کے آج تمام رات تم نماز پرہو. اس نے رات کو نماز پڑھنا شروع ہی کیا تھا کے اسے یاد آ گیا کے اسنے روپے کہاں رکھے تھے.صبح کو وہ ڈورا ہوا آیا اور امام کو تمام واقعہ سنایا. امام نے فرمایا ہاں شیطان کیسے برداشت کرتا کے تم ساری رات نماز پڑھتے رہو، پھر بھی تمہیں چاہیے تھا کے ساری رات نماز پڑھتے رہتے. [ تاریخ کے دریچوں سے اقتباس: تصنیف حضرت مفتی رفیع عثمانی ]