Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2014

Kala rung

ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا جس کا رنگ قدرتی کالا تھا۔ ”بیگم صاحبہ! اگر جان کی امان پاوٴں تو کچھ عرج کروں؟ بیوی بن کر بولی۔ ”جی حضور فرماےئے“ شوہر بولا۔ ”عرض یہ کہ آپ ہمیشہ منہ کھول کر ہنستی رہا کریں تا کہ آپ کے سفید دانتوں سے مجھے آپ کو ڈھونڈنے میں وقت پیش نہ آئے۔“

Sher ki shadi

جنگل میں شیر کی شادی ہو رہی تھی جب بارات چلنے لگی تو اچانک ایک چوہا بارات کے آگے آگے ناچنے لگا۔ شیر نے اس سے کہا۔”بھئی تم کیوں ناچ رہے ہو یہ کسی چوہے کی شادی تو نہیں ہے۔ چوہا بولا۔ شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا۔“

Mammi dadi

”ایک روز ممی نے ڈیڈی کو باغ میں سے سبزی توڑ لانے کو کہا۔ ڈیڈی کے ہاتھ میں لمبے پھل کا چاقو تھا بدقسمتی سے ڈیڈی کا پیر پھسلا اور وہ اس طرح گرے کہ یتز دھار چاقو نے ان کی شہ رگ کاٹ دی۔“ اوہ بڑا افسوناک واقعہ تھا… پھر تمہاری امی نے کیا کیا؟ ”انہوں نے اس روز مجبوراً دال پکائی تھی۔“

Ghalti

Valentine day...  ایک گرم جوش شیدائی نے اپنی محبوبہ سے کہا۔ ”آوٴ ہم آزمائشی شادی کر لیں۔ اگر ہم نے محسوس کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے تو ہم کو الگ ہو جانے کا اختیار ہو گا۔“ محبوبہ نے کہا ”تمہاری تجویز بھی اچھی ہے۔ لیکن اس بے چاری غلطی کا کیا ہو گا؟“

Khobsurat aurat

ایک دفعہ بابا جی فرید رحمتہ اللہ علیہ اپنے سیلانی دور میں ایک بستی سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالکہ ہے اور غریب اس کی ملازمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ مشاطہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے ساتھ کوئی ریت کا ذرّہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے اس نے خادمہ کو مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں کو کھلاتی، لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں

Dil khush kar data e

''دل خوش کر دتا ای'' شیخ تجمل حسین نے ایک ہوٹل میں اپنے اکلوتے لخت جگر کو ایک نہائت ہی کوبصورت اور طرحدار لڑکی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے دیکھا، انکے سامنے میز پر انواع و اقسام کے چائنیز اور دیسی کھانے چنے ہوئے تھے اور وہ خوشی کے عالم میں دعوت اڑا رہے تھے۔ شیخ صاحب نے جب اپنے ناہنجار بیٹے کو اپنی خون پسینے کی کمائی اس طرح ایک حسینہ پر لٹاتے دیکھا تو انہیں بہت غصہ آیا، انہوں نے خود ساری زندگی محنت کی اور صفر سے اپنا سفر شروع کیا اور آج وہ اللہ کے فضل سے شہر کے معروف بزنس ٹا ئیکون تھے۔ بہر حال جب رات گئے بیٹا گھر واپس آیا تو شیخ صاحب نے اسکی کلاس لینا شروع کی اور پہلے تو اسے اپنی معاشرتی اقدار پر سیر حاصل لیکچر دیا اور بعد ازاں استفسار کیا کہ سچ سچ بتاؤ کہ آج کی دعوت میں کتنے کا بل بنا؟ بیٹے نے جواب دیا 1500 روپے، شیخ صاحب کو یقین نہیں آیا اور کہنے لگے، میرے ساتھ جھوٹ نہیں چلے گا،،،،کھاؤ میرے سر کی قسم کہ صرف 1500 روپے خرچ ہوئے تھے، بیٹے نے بلا توقف کہنا شروع کیا،، ابا جی، آپکے اس گنجے سر کی قسم، اس بیچاری کے پاس صرف 1500 روپے ہی تھے ا

Main ye tasleem karta hun

میں یہ تسلیم کرتا ہوں مجھے الفت کے رستے پر وفا کی حق پرستی پر بڑا ہی ناز ہے جاناں میں جتنے خواب بنتا ہوں میں جتنے لفظ لکھتا ہوں مری تحریر میں شامل مرے جذبوں کی عکاسی مری خود آگہی ہر پل مجھے یوں درس دیتی ہے اگر تُم ہار بھی جاؤ تو اتنا حوصلہ رکھنا وفا سے رابطہ رکھنا مُحبت کے سفر میں تو . وفا ہی شرطِ اول ہے وفا ہی حرفِ آخر ہے................

Mujadad alif sani

مجھے یاد آ گیا، حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ)- وہ بہت سخت ، اور اصولی بزرگ تھے ، لیکن ایک بات میں ان کی کبھی نہیں بھولتا - انھوں نے فرمایا : "جو شخص تجھ سے مانگتا ہے اس کو دے - کیا یہ تیری انا کے لئے کم ہے کہ کسی نے اپنا دست سوال تیرے آگے دراز کیا -" اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے - اور عجیب و غریب بات انھوں نے یہ کی ہے کہ، "جو حق دار ہے اس کو بھی دے ، اور جو ناحق کا مانگنے والا ہے اس کو بھی دے - تاکہ جو تجھے ناحق کا مل رہا ہے کہیں وہ ملنا بند نہ ہو جائے -" (از اشفاق احمد - زاویہ ١ - دیے سے دیا)

Pakistani

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جاپان میں ایک صابن بنانے والی فیکٹری میں غلطی سے ایک پیکٹ بغیر صابن کے پیک ہو گیا. انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ سوچا کہ لاکھوں ڈالر لگا کر ایک ایکس رے مشین خرید لی جو یہ چیک کرتی تھی کہ پیکٹ کے اندر صابن موجود ہے یا نہیں. یہی مسئلہ پاکستان میں ہوا. انہوں نے کیا کیاِِ؟؟ انہوں نے اسمبلی لائن کے پیچھے ایک پنکھا لگا دیا. خالی پیکٹ خود بخود اڑ کر دور جا گرتے. پاکستان زندہ باد!! واقعی پاکستانی بہت ذہین ہیں۔۔۔ امریکہ نے خلائی شیٹل تیار کروایا کڑوڑوں ڈالر خرچ ہو ئے۔ کئی سال لگے اسے تیار کروانے میں لیکن جب یہ کام مکمل ہو گیا اور خلائی شٹل اْڑنے کے لئے چھوڑا گیا تو اس میں کچھ خرابی آگئی اور وہ اسٹارٹ نہیں ہوا اورتو امریکہ نے تمام ممالک ماہریں کو بلایا اور سب سے پہلے جاپانی کاریگروں نے کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے پھر چینی کاریگروں نے کوشش کی لیکن خلائی شیٹل اسٹارٹ نہیں ہوا پھر پاکستانی کاریگروں کو بلایا گیا تو انہوں نے چیک کیا اور کئی مزدور بلوائے اور کہا کہ اس شٹل کو اُلٹا کر کے دو تین جھٹکے مارو انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اسٹارٹ کی تو خلائی شیٹل اْڑ

Peer kameel

"دعا قبول نہیں ہوتی تو آسرے اور وسیلے تلاش کرنے کے بجائے صرف ہاتھ اٹھا لیجیئے ،اللہ سے خود مانگیں ۔ ۔ دے دے تو شکر کریں نہ دے تو صبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہاتھ آپ خود اٹھائیں ۔ ۔" ۔ پیر کامل "عمیرہ احمد"

Chirya

میاں بیوی ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے کہ سامنے روشندان پر ایک چڑیا اور چڑا آ بیٹھے اور ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے۔ بیوی نے انہیں دیکھ کر بڑے حسرت بھرے انداز میں اپنے شوہر سے کہا۔”ہم سے اچھے تو یہ چڑیا اور چڑا ہیں ایک دوسرے سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ مجھ پر پیار بھری نظر ہی نہیں ڈالتے۔“ شوہر نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوپہر میں کھانے کی میز پر دونوں بیٹھے تھے کہ روشندان میں پھر چڑیا اور چڑا آ بیٹھے اور پیار کرنے لگے۔ بیوی نے دوبارہ شوہر کی توجہ اس طرف کروائی لیکن شوہر پر  کوئی اثر نہ ہوا۔ شام کو روشندان میں جب تیسری بار بھی وہی نظارہ دیکھنے کو ملا تو بیوی سے رہا نہ گیا اور پھٹ پڑی۔ ”میں صبح سے کہہ رہی ہوں۔ آخر میں بھی انسان ہوں مجھے بھی پیار کی ضرورت ہے لیکن آپ کے سینے میں شاید خدا نے اس چڑے سے بھی چھوٹا دل دیا ہے۔“ شوہر نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ کیوں اپنا خون جلاتی ہو بیگم! تم نے شاید غور نہیں کیا۔ کہ اس چڑے کے ساتھ صبح سے لے کر رات تک یہ تیسری چڑیا ہے۔

Ghussa

جب مجھے غصہ آتا تو قدرت اللہ میرے کان میں کہتا چھلنی بن جاؤ اس جھکڑ کو گزر جانے دو اندر رُکے نہیں۔ روکو گے تو چینی کی دکان میں ہاتھی گھس آئے گا۔ غصہ کھانے کی نہیں پینے کی چیز ہے۔ جب میں کسی چیز کے حصول کے لئے بار بار کوشش کرتا تو قدرت اللہ کی آواز آتی ضد نا کرو اللہ کو اجازت دو اپنی مرضی کو کام میں لائے۔ جب میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا نا, ہار جاؤ۔ ہار جاؤ ۔ ہار جانے میں ہی جیت ہے۔ جب بھی میں تھکا ہوتا کوئی مریض دوا لینے آتا تو میں اُسے ٹالنے کی سوچتا تو قدرت اللہ کہتا دے دو دوا ، شاید اللہ کو تمھاری یہی ادا پسند آ جائے۔ الکھ نگری (ممتاز مفتی) سے اقتباس

Insurance

ایک امیر آدمی نے شاپنگ سینٹر کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور بے پرواہی کے ساتھ گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ کر شاپنگ سینٹر کے اندر جانے لگا۔ شاپنگ سینٹر کے گارڈ نے ان کے قریب آ کر کہا۔ ”جناب! آپ کو ملک کے حالات تو معلوم ہوں گے‘ آئے دن گاڑی چوری کی وار داتیں ہوتی رہتی ہیں اور آپ نے گاڑی کی چابی گاڑی میں چھوڑ دی ہے؟“ ان صاحب نے بے نیازی سے کہا۔ ”کوئی بات نہیں گاڑی انشورڈ ہے؟“ گارڈ نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اور وہ محترمہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ہیں ان کی بھی انشورنس کروائی ہوئی ہے۔“

Saqafat

جی ہاں ہماری ثقافت دنیا بھر کی ممتاز ثقافتوں میں سے ہے۔ ہمارے ہر علاقے کا اپنا لباس اپنی زبان اور اپنی تاریخ ہے۔ اپنے رواج ہیں اپنی موسیقی اپنا ڈانس۔ اسی لیے سندھ ثقافت کا فیسٹیول بہت اچھا لگا تھا۔ لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ تھا۔  بختاور نے انگلش میں اپنا گانا پیش کیا ماڈلز نے واک کی اور جدید قسم کے لباس میں میوزک بھی جدید پیش کیا گیا اسی دوران ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں سندھی کلاسک گلوکار بتا رہے تھے کہ انہیں شرکت نہیں کرنے دی جا رہی جبکہ سٹرنگز اور عینی پرفارم کر رہے ہیں ایک مرد ماڈل نے تو عینے کو سٹیج پر بوسہ بھی دے ڈالا۔ الٹی گنگا بہہ رہی ہے بھائی صرف ڈرامہ بازی ہو رہی ہے

Aitemaad

امریکہ میں ایک چور کسی جوہری کے گھر میں گھس گیا اس نے دیکھا کہ تجور ی کے ساتھ ایک تحریر درج تھی۔ ”تجوری توڑنے کی زحمت نہ کریں بلکہ اس کا ہینڈل دائیں طرف گھمائیں لاک کھل جائے گا۔“ چور نے حسب ہدایت ہینڈل گھمایا تو کمرہ روشنی سے جگما اٹھا اور تجوری میں نصب الازم بلند آواز میں بجنے لگا۔ چور گرفتار ہو کر جیل چلا گیا‘ جیل سے اپنے گھر والوں کے نام اس نے ایک خط لکھا جس میں تحریر بھی درج تھی۔ ”میرا انسانیت اور شرافت پر سے اعتماد بالکل اٹھ چکا ہے۔“

Tappar

عدالت میں ایک مقدمہ آیا کہ ایک شخص نے بس میں سفر کے دوران ایک خاتون کو تھپڑ مار دیا۔  جج نے ملزم سے پوچھا ۔ تم نے اس خاتون کو تھپڑ کیوں مارا ؟  ملزم کہنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب بات دراصل یہ تھی کہ میں ان محترمہ کی سیٹ کے سامنے بیٹھا تھا‘  میں نےدیکھا کہ بس کنڈیکڑ اس خاتون کے پاس آیا اور کہا کہ ٹکٹ لے لیجئے ۔ یہ سن کر خاتون نے سیٹ کے نیچے سے اپنا سوٹ کیس نکالا ، سوٹ کیس کھول کر اس میں سے پرس نکالا ۔ پرس نکال کر سوٹ کیس بند کیا  سوٹ کیس بند کرکے اپنا پرس کھولا ۔ پرس کھول کر اس میں سے اپنا چھوٹا سا بٹوا نکالا بٹوا نکال کر پرس بند کردیا ۔ پرس بند کرکے پھر سوٹ کیس کھولا سوٹ کیس کھول کر پرس اس میں رکھ دیا  پرس سوٹ کیس میں رکھ کر خاتون سوٹ کیس پھر سیٹ کے نیچے رکھا۔  خاتون نے جب اپنا بٹوا کھولا تو۔۔۔اتنی دیر تک کنڈیکڑ دوسری طرف چلا گیا تھا ۔ ۔ چنانچہ خاتون نے سیٹ کے نیچے سے اپنا سوٹ کیس نکالا  سوٹ کیس نکال کر اسے کھولا ۔ سوٹ کیس کھول کر اس میں سے پرس نکالا بٹوا پرس میں بندکرکے پرس کو پھر سوٹ کیس میں رکھا اور سوٹ کیس بند کرکے سیٹ کے نیچے رکھا ۔ اتنے میں