Skip to main content

Posts

Showing posts from July, 2012

un jeel se ghehri ankhon main ek sham kahe abad to ho

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو اُس جھیل کنارے پل دو پل اِک خواب کا نیلا پھول کھلے وہ پھول بہا دیں لہروں میں اِک روز کبھی ہم شام ڈھلے اس پھول کے بہتے رنگوں میں جس وقت لرزتا چاند چلے اس وقت کہیں اُن آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو پھر چاہے عمر سمندر کی ہر موج پریشاں ہو جائے پھر چاہے آنکھ دریچے سے ہر خواب گریزاں ہو جائے پھر چاہے پھول کے چہرے کا ہر درد نمایاں ہو جائے اس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو اِن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو

Wo humsafar that magar us se hum nawai na thi

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اپنی دکھ نہ اوروں کا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن سدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی نہ تھی کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

Ibadat...

زمانہ نے عجب پلٹا کھایا ہے ، پچھلے لوگ عبادت چھپ کر اس لیے کرتے تھے کہ کہیں شہرت نہ ہو جائے - اور اب اس لیے چھپا کر کرتے ہیں کہیں لوگ مذاق نہ اڑائیں -  از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٦١٥

Aur jado chal gya

Darechai kol do dil ke

دریچے کھول دو دل کے غلط فہمی کی مکڑی نے بڑی سرعت سے اک جالا سا بُن ڈالا محبت اس کے تاروں میں الجھ کر ہاتھ پاؤں مار کر بچنے کی کوشش کر رہی ہے ایک مدت سے وہ ذہنی کشمکش اور کرب کے اس جال سے نکلے بھی تو کیسے؟ وہ کوئی روشنی اپنے دریچوں سے ادھر آنے نہیں دیتا ہوائے اعتبار و باہمی الفت کے جھونکوں کو وہ شہرِ دل کی گلیوں میں گزرنے ہی نہیں دیتا مرے جذبوں کا سچ فہم و فراست کی فصیلوں سے اترنے ہی نہیں دیتا مگر ہر دن کی روپہلی کرن سے میں یہ کہتی ہوں اسے گر ہو سکے تو اب حقیقت آشنا کر دو ذرا گھر کے اندھیروں میں لگے ان شک کے جالوں میں وفا کی ایک اس اجلی کرن کو کام کرنے دو دریچے کھول دو دل کے   Like This

Ankhon ko badalny ki riwayat nahi seki

آنکھوں کو بدلنے کی روایت نہیں سیکھی ھاں،ھم نےزمانے کی یہ عادت نہیں سیکھی یہ جان کی بازی ھے یوں،چُپ چاپ نہ ھارو تم نے بھی محبت میں بغاوت نہیں سیکھی اُس کو بھی عداوت کا سلیقہ نہیں آیا اور ھم نے بھی لگتا ھے محبت نہیں سیکھی ساحل سے سمندر کا سکوں سیکھا ھے ھم نے موجوں سے وہ لپٹی ھوئی وحشت نہیں سیکھی آتے ھوئے جھونکوں سے اُلجھتے رہے اکثر جاتے ھوئے لمحوں سے شکایت نہیں سیکھی تم سے یہ کہا بھی تھا انا ھم سے نہ چھینو اور تم نے رویئے میں،رعایت نہیں سیکھی ھم پچھلی صفوں پر ہی کھڑے رہ گئے آخر شہرت کو کمایا تو ھے شہرت نہیں سیکھی ھاں درد چُھپانے کا قرینہ بھی تھا مشکل پلکوں پہ جو جم جاتی ھے حیرت نہیں سیکھی