جاہ کی خواہشِ بے فیض پر مرنے والے
کسی انسان کی عزت نہیں کرنے والے
وہی اب شہر کی نظروں میں شناور ٹھہرے
لبِ دریا جو کھڑے تھے کئی ڈرنے والے
کس قدر خواب میں ابھی شعر بنانے ہیں ہمیں
کتنے خاکوں میں ابھی رنگ ہیں بھرنے والے
وقت پر زور نہیں عمر چلی جاتی ہے
سینکڑوں کام پڑے ہیں ابھی کرنے والے
بھول ہوگی تو اُسے دل سے کریں گے تسلیم
ہم نہیں دوش کسی اور پر دھرنے والے
دیکھ لے آنکھ اٹھا کرہمیں اے سیلِ ہوس
نہیں اس شہر کے سب لوگ بکھرنے والے
پیار بٹنے سے کبھی ختم نہیں ہوگا امجد
دل کے دریا تو نہیں ہوتے کبھی اترنے والے
امجد اسلام مجد
کسی انسان کی عزت نہیں کرنے والے
وہی اب شہر کی نظروں میں شناور ٹھہرے
لبِ دریا جو کھڑے تھے کئی ڈرنے والے
کس قدر خواب میں ابھی شعر بنانے ہیں ہمیں
کتنے خاکوں میں ابھی رنگ ہیں بھرنے والے
وقت پر زور نہیں عمر چلی جاتی ہے
سینکڑوں کام پڑے ہیں ابھی کرنے والے
بھول ہوگی تو اُسے دل سے کریں گے تسلیم
ہم نہیں دوش کسی اور پر دھرنے والے
دیکھ لے آنکھ اٹھا کرہمیں اے سیلِ ہوس
نہیں اس شہر کے سب لوگ بکھرنے والے
پیار بٹنے سے کبھی ختم نہیں ہوگا امجد
دل کے دریا تو نہیں ہوتے کبھی اترنے والے
امجد اسلام مجد
Comments
Post a Comment