Skip to main content

jis ke liye han jan balub usko nhi malal bhi


جس کے لئے ہیں جاں بلب، اس کو نہیں ملال بھی
اے دلِ ناصبور اب، عادتِ ہجر ڈال بھی
دامنِ یار تک کہاں عشقِ زبوں کی دسترس
حشمتِ حسن دیکھ کر بھول گیا سوال بھی
کب سے ہیں لوگ سر بکف، راہ میں مثلِ آہواں
اب تو میرے شکار تُو، تیر و کماں سنبھال بھی
جس کے بغیر روز و شب سخت بھی تھے محال بھی
اس کے بغیر کٹ گئے کس طرح ماہ و سال بھی
انجم و مہر و ماہتاب، سرو و صنوبر و گلاب
کس سے تجھے مثال دوں، ہو تو کوئی مثال بھی
اس کے خرام ناز سے ایسی قیامتیں اُٹھیں
اب کے تو مات کھا گئی چرخِ کہن کی چال بھی
ہم کو تو عمر کھا گئی خیر ہمیں گلہ نہیں
دیکھ تو کیا سے کیا ہوئے یار کےخدوخال بھی
اب کے فراز وہ ہوا جس کا نہ تھا گمان تک
پہلی سی دوستی تو کیا ختم ہے بول چال بھی


Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay