تھک گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا
میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی تو تھا
جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اداسی کا
میں تجھ سے کیسے کہوں یار ِمہرباں میرے
کہ تو علاج نہیں ہے میری ہر اداسی کا
یہ اب جو آگ کا دریا میرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا
اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا
میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی تو تھا
جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اداسی کا
میں تجھ سے کیسے کہوں یار ِمہرباں میرے
کہ تو علاج نہیں ہے میری ہر اداسی کا
یہ اب جو آگ کا دریا میرے وجود میں ہے
یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا
Comments
Post a Comment