خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی
محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی
افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور
پندار میں "ہم قامتِ افلاک" تھی وہ بھی
اسے پاس ِادب، سنگِ صفت عزم تھا اس کا
اسے سیل طلب، صورتِ خاشاک تھی وہ بھی
جس شب کا گریباں تیرے ہاتھوں سے ہوا چاک
اے صبح کے سورج، میری پوشاک تھی وہ بھی
اک شوخ کرن چومنے اتری تھی گلوں کو
کچھ دیر میں پیوستِ رگِ خاک تھی وہ بھی
جس آنکھ کی جنبش پہ ہوئیں نصب صلیبیں
مقتل میں ہمیں دیکھ کے نمناک تھی وہ بھی
دیکھا جو اسے، کوئی کشش ہی نہ تھی اس میں
سوچا جو اسے، حاصل اور ادراک تھی وہ بھی
جو حرف میرے لب پہ رہا زہر تھا محسن
جو سانس میرے تن میں تھی سفّاک تھی وہ بھی
محسن نقوی
محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی
افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور
پندار میں "ہم قامتِ افلاک" تھی وہ بھی
اسے پاس ِادب، سنگِ صفت عزم تھا اس کا
اسے سیل طلب، صورتِ خاشاک تھی وہ بھی
جس شب کا گریباں تیرے ہاتھوں سے ہوا چاک
اے صبح کے سورج، میری پوشاک تھی وہ بھی
اک شوخ کرن چومنے اتری تھی گلوں کو
کچھ دیر میں پیوستِ رگِ خاک تھی وہ بھی
جس آنکھ کی جنبش پہ ہوئیں نصب صلیبیں
مقتل میں ہمیں دیکھ کے نمناک تھی وہ بھی
دیکھا جو اسے، کوئی کشش ہی نہ تھی اس میں
سوچا جو اسے، حاصل اور ادراک تھی وہ بھی
جو حرف میرے لب پہ رہا زہر تھا محسن
جو سانس میرے تن میں تھی سفّاک تھی وہ بھی
محسن نقوی
Comments
Post a Comment