خدا کرے دل سادہ کو کچھ پتا نہ لگے
سوادِ شہر کی اس کو کبھی ہوا نہ لگے
وہ اپنے دل میں سمندر چھپائے پھرتا ہے
کہ جس کی آنکھ میں آنسو بھی اک روا نہ لگے
یہ فاصلے بھی عجب کچھ فریب دیتے ہیں
ملا نہیں ہے جو صدیوں سے وہ جدا نہ لگے
ہم اس طرح سے چلو راستہ بدل جائیں
بچھڑتے وقت کسی کو بھی کچھ برا نہ لگے
یہ ایک جبرِ مسلسل کہاں تلک میں سہوں
کہ آئینہ بھی جو دیکھوں اسے بھلا نہ لگے
ہمارے نام پہ سارے گناہ لکھ ڈالو
تمہارے نام پہ اب بھی کوئی خطا نہ لگے
ہمارا حال وہی کر دو جو کہ عبرت ہو
دعا بھی مانگیں تو ہم کو کوئی دعا نہ لگے
L
Comments
Post a Comment