بادل برسیں
بادل اتنی زور سے برسیں
میرے شہر کی بنجر دھرتی
گم صم خاک اڑاتے رستے
سوکھے چہرے
پیلی آنکھیں
بوسیدہ مٹیالے چہرے
ایسے بھیگیں
اپنے کو پہچان نہ پائیں
بجلی چمکے
بجلی اتنے زور سے چمکے
میرے شہر کی سونی گلیاں
مدت کے تاریک جھوکے
پراسرار کھنڈر ویرانے
ماضی کی مدھم تصویریں
ایسے چمکیں
سینے کا ہر بھید اگل دے
دل بھی ڈھڑکے
وہ بھی اتنی زور سے ڈھڑکے
سوچوں کی مضبوط طنابیں
خواہش کی ان دیکھی گرہیں
رشتوں کی بوجھل زنجیریں
ایک چھناکے سے کھل جائیں
سارے رشتے
سارے بندھن
چاہوں بھی تو یاد نہ آئیں
آنکھیں اپنی دید کو ترسیں
بادل اتنی زور سے برسیں
Comments
Post a Comment