• میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟
"تم نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا حیا! کہ میں ہر وقت اسکارف کیوں پیہنتی ہوں؟"
عائشے سر جھکائے لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ تراشتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"میں تمہیں بتاؤں‘ میرا بھی دل کرتا ہے کے میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول یا اٹل
ی اور اسپین کی لڑکیاں پہن کر آتی ہیں۔ بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پہ چلتی آ رہی ہوتی ہیں تو ایک دنیا ان کو محسور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پہ چلوں تو لوگ محسور و متاثر ہو کر مجھے دیکھیں.... لیکن...." وہ سانس لینے کو رکی‘ حیا بنا پلک جھپکے‘ سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔
"لیکن.... پھر مجھے خیال آتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک دن میں مر جاؤں گی‘ جیسے تمہاری دوست مر گئی تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی‘ جس کے اوپر میں چلتی ہوں۔ پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور زمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور لال آندھی ہر سو چلے گی۔ اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ تم نے کبھی اولمپکس کے وہ اسٹیڈیمز دیکھے ہیں جن میں بڑی بڑی اسکرینز نصب ہوتی ہیں؟ میں خود کو ایسے ہی اسٹیڈیم میں دیکھتی ہوں۔ میدان کے عین وسط میں کھڑے۔ اسکرین پہ میرا چہرا ہوتا ہے اور پورا میدان لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سب مجھے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور میں اکیلی وہاں کھڑی ہوتی ہوں۔ میں سوچتی ہوں حیا‘ اگر اس وقت میرے رب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اناطولیہ کی عائشے گل‘ اب بتاؤ تم نے کیا‘ کیا؟ یہ بال‘ یہ چہرا‘ یہ جسم‘ یہ سب تو میں نے تمہیں دیا تھا۔ یہ نہ تم نے مجھ سے مانگ کر حاصل کیا تھا اور نہ ہی اس کی قیمت ادا کی تھی۔ یہ تو میری امانت تھی۔ پھر تم نے اسے میری مرضی کے مطابق استعمال کیوں نہیں کیا؟ تم نے اس وہ کام کیوں کیے جن کو میں نا پسند کرتا ہوں؟ تم نے ان عورتوں کا رستہ کیوں چن لیا جن سے میں ناراض تھا؟"
میں نے ان سوالوں کے بہت جواب سوچے ہیں‘ مگر مجھے کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا۔ روز صبح اسکارف لینے سے پہلے میری آنکھوں کے سامنے ان تمام حسین عورتوں کے دلکش سراپے گردش کرتے ہیں جو ٹی وی پہ میں نے کبھی دیکھی ہوتی ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں بھی ان کا راستہ چن لوں‘ مگر پھر مجھے وہ آخری عدالت یاد آ جاتی ہے‘ تب میں سوچتی ہوں کہ اس دن میں الله کو کیا جواب دوں گی؟ میں ترازو کے ایک پلڑے اپنا وہ سراپا ڈالتی ہوں جس میں‘ میں خود کو اچھی لگتی ہوں اور دوسرے میں وہ جس میں‘ میں الله تعٰالی کو اچھی لگتی ہوں۔ میری پسند کا پلڑا کبھی نہیں جھکتا۔ الله کی پسند کا پلڑا کبھی نہیں اٹھتا۔ تم نے پوچھا تھا کہ میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟ سو میں یہ اس لیے کرتی ہوں کیونکہ میں الله کو ایسے اچھی لگتی ہوں۔"
(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "جنّت کے پتے" سے)
عائشے سر جھکائے لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ تراشتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"میں تمہیں بتاؤں‘ میرا بھی دل کرتا ہے کے میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول یا اٹل
ی اور اسپین کی لڑکیاں پہن کر آتی ہیں۔ بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پہ چلتی آ رہی ہوتی ہیں تو ایک دنیا ان کو محسور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پہ چلوں تو لوگ محسور و متاثر ہو کر مجھے دیکھیں.... لیکن...." وہ سانس لینے کو رکی‘ حیا بنا پلک جھپکے‘ سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔
"لیکن.... پھر مجھے خیال آتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک دن میں مر جاؤں گی‘ جیسے تمہاری دوست مر گئی تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی‘ جس کے اوپر میں چلتی ہوں۔ پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور زمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور لال آندھی ہر سو چلے گی۔ اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ تم نے کبھی اولمپکس کے وہ اسٹیڈیمز دیکھے ہیں جن میں بڑی بڑی اسکرینز نصب ہوتی ہیں؟ میں خود کو ایسے ہی اسٹیڈیم میں دیکھتی ہوں۔ میدان کے عین وسط میں کھڑے۔ اسکرین پہ میرا چہرا ہوتا ہے اور پورا میدان لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سب مجھے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور میں اکیلی وہاں کھڑی ہوتی ہوں۔ میں سوچتی ہوں حیا‘ اگر اس وقت میرے رب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اناطولیہ کی عائشے گل‘ اب بتاؤ تم نے کیا‘ کیا؟ یہ بال‘ یہ چہرا‘ یہ جسم‘ یہ سب تو میں نے تمہیں دیا تھا۔ یہ نہ تم نے مجھ سے مانگ کر حاصل کیا تھا اور نہ ہی اس کی قیمت ادا کی تھی۔ یہ تو میری امانت تھی۔ پھر تم نے اسے میری مرضی کے مطابق استعمال کیوں نہیں کیا؟ تم نے اس وہ کام کیوں کیے جن کو میں نا پسند کرتا ہوں؟ تم نے ان عورتوں کا رستہ کیوں چن لیا جن سے میں ناراض تھا؟"
میں نے ان سوالوں کے بہت جواب سوچے ہیں‘ مگر مجھے کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا۔ روز صبح اسکارف لینے سے پہلے میری آنکھوں کے سامنے ان تمام حسین عورتوں کے دلکش سراپے گردش کرتے ہیں جو ٹی وی پہ میں نے کبھی دیکھی ہوتی ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں بھی ان کا راستہ چن لوں‘ مگر پھر مجھے وہ آخری عدالت یاد آ جاتی ہے‘ تب میں سوچتی ہوں کہ اس دن میں الله کو کیا جواب دوں گی؟ میں ترازو کے ایک پلڑے اپنا وہ سراپا ڈالتی ہوں جس میں‘ میں خود کو اچھی لگتی ہوں اور دوسرے میں وہ جس میں‘ میں الله تعٰالی کو اچھی لگتی ہوں۔ میری پسند کا پلڑا کبھی نہیں جھکتا۔ الله کی پسند کا پلڑا کبھی نہیں اٹھتا۔ تم نے پوچھا تھا کہ میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟ سو میں یہ اس لیے کرتی ہوں کیونکہ میں الله کو ایسے اچھی لگتی ہوں۔"
(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "جنّت کے پتے" سے)
Comments
Post a Comment