سب سے زیادہ حسرت ناک حالت ان پردیسیوں کی ہے،
جو کسبِ معاش کے لیے باہر گئے۔ ان کے عزیز ان کے انتظار میں یہاں پردیسی ہیں، وہ وہاں پردیسی۔ دولت کی ہوس نے جدائیاں پیدا کر دیں۔ ۔ ۔خواہشات کا پھیلاو، نمائش کی خواہش، آرائش کی تمنا نے مجبور کر دیا کہ اپنے محبوب بیٹے، محبوب خاوند کو وطن سے باہر بھیجا جائے۔ ۔
اور وہ بیچارے، یادوں کے سہارے دن کاٹ رہے ہیں۔ اوپر سے گزرنے والے طیاروں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ جہاز وطن جا رہے ہیں اور وہ مجبور ہیں۔ ۔ ۔ وطن میں عزت کی زندگی گزارنے کی خاطر پردیس میں ذلت برداشت کر رہے ہیں۔ ۔ ۔
ہم کیوں نہیں سمجھتے؟ دولت کی تمنا دلبروں کو دور کر دیتی ہے۔ انسان غریبی کا لقمہ نہیں کھاتا
اور جدائی کا زہر پی لیتا ہے۔
کیوں نہ بلایا جائے ان بیچاروں کو۔ ۔ ۔
غریبی کے اندیشے سے نکل کر تم اور بہت سے اندیشوں میں مبتلا ہو گئے ہو۔
تم ایک دوسرے کی یاد میں روتے ہو۔ ۔ ۔
چند سکوں کے عوض اتنا بڑا عذاب۔ ۔ ۔
جدائی کا عذاب۔ ۔ ۔ بلا لو پردیسیوں کو دیس میں واپس۔ ۔ ۔
(حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
Comments
Post a Comment