میرے قرآن پاک پڑھانے والی استاد جی بچوں میں پھل بانٹ رہے تھے ایک بچہ بار بار لائن میں چلا آتا میں یہ منظر کافی دیر سے دیکھ رہا تھا ( واضح رہے میرے استاد جی نابینا ہیں ) اب میں جو کافی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا نہ جانے کونسی غیبی طاقت نے میرے قدم جکڑ رکھے تھے ورنہ میں اس بچے کو ضرور ایسا کرنے سے منع کرتا کیوں کہ باقی بچوں کے ہاتھوں میں ایک ایک فروٹ تھا پر وہ کمزور سا چڑیا جیسا بچہ اچھے خاصے آم اور تربوز اپنے تھیلے میں ڈال چکا تھا اور حیرانگی مجھے اس بات پر بھی ہوئی کہ استاد جی کے پاس اگر دوبارہ کوئی بچہ آتا جو پہلے لے جا چکا ہو تو استاد جی اسکے گال کھینچتے اور بھگا دیتے پر اسے نہ جانے کیسے نہیں پہچان پا رہے تھا یا وہ کیسے چکمہ دے جاتا تھا جب کہ آج تک مجھ جیسا بھگوڑا انہیں چکمہ نہیں دے پایا خیر دل میں ایک عجیب سی خوشی بھی تھی کوئی تو ہے جس سے استاد جی چکمہ کھا گۓ..
خیر جب فروٹ ختم تماشا ہضم ہوگیا تو میں استاد جی کے پاس چلا گیا جو اپنے گھر کی طرف واپس جا رہے تھے خیر میں نے راستے میں ہی انکو آ لیا اور کہنے لگا ..
" بادشاہ لوگو میرا حصّہ کہاں ہے ابھی اتنا بڑا تو نہ ہوا میں ..."
استاد جی مسکراۓ اور کہنے لگے ..
" میرے نالائق پتر ! پھل تو محنت کرنے والوں کو ملتا ہے تماشے دیکھنے والے خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں تیری طرح ..."
( میرے استاد چاہے میرے سوہنے باوا جی ہوں یا میرے پیارے استاد جی پتا نہیں کہاں کہاں سے لفظوں کے جوڑ ڈھونڈ لاتے ہیں کہ میں لاجواب ہی ہوجاتا ہوں ..)
خیر میں انکے ساتھ چلتا رہا آج شاید انہیں تنگ کرنے کا ارادہ بن رہا تھا میرا ..
" ارے استاد جی بہت افسوس کی بات ہے ایک چھوٹا سا بچہ آج ہاتھ کر گیا آپکے ساتھ ."
کونسا بچہ ؟؟ اچھا کہیں تو اس چڑیا کی تو بات نہیں کر رہا جو ہاتھ میں بورا لئے بار بار گھوم کر آرہا تھا اپنا حصّہ وصول کرنے ؟؟
میں نے ایک نظر استاد جی کی طرف دیکھا اور سوچا یار یہ واقعی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے کیا ؟
جی استاد جی اسی کی بات کر رہا ہوں
" نہیں پتر وہ چکمہ نہیں دے رہا تھا میں چکمہ کھا رہا تھا .. یہ جو باقی بچے تھے نا روزے خور یہ تو خود ہی آم چوپتے اور پھر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے پر اس بچے کو اپنے گھر والوں کا خیال تھا یہ جو پیچھے جھگیاں ہیں نا وہاں سے آتا ہے یہ اور میں روز اس سے دھوکہ کھاتا ہوں اب تو کچھ نشہ سا لگ گیا ہے ..
جہانگیر پتر کبھی ایسے بچوں سے دھوکہ کھا کر دیکھ تیری پریشانیاں کیسے دھوکہ کھا کر تجھ سے راستہ بدل لیں گی تو سوچ بھی نہیں سکتا ..
( ملک جہانگیر اقبال کی کتاب "پیچیدہ تخلیق" سے اقتباس )
Comments
Post a Comment