اپنے چہرے پہ زلفیں گرا دیجئے
دھوپ کو سائباں میں چھپا دیجئے
غم گساری کو دامن بڑھا دیجئے
آنسوؤں کو نگینے بنا دیجئے
کیا ہے میری خطا یہ بتا دیجئے
پھر مجھے جو بھی چاہے سزا دیجئے
اپنے جلوؤں کی جنت دکھا دیجئے
عشقِ لا چار کو حوصلہ دیجئے
یاد کی سیڑھیوں سے اتر کر کبھی
میرا شانہ پکڑ کر ہِلا دیجئے
نرمہاتھوں سے چھو کر مرےہاتھ کو
میری نس نس میں کلیاں کھِلا دیجئے
چاندنی بن کے دل میں اُتر آئیے
میرے آنگن کی رونق بڑھا دیجئے
یاد کی کھڑکیاں کھل رہی ہیں صنم
اپنی خوشبو ہوا میں ملا دیجئے
حجرۂ دل زمانے سے ویران ہے
اپنی تصویر اِس میں سجا دیجئے
روٹھ جائیں کبھی مان جائیں کبھی
کچھ مٹا دیجئے کچھ بنا دیجئے
مجھ کو دنیا کی دولت سے مطلب نہیں
اپنے دل میں ذرا سی جگہ دیجئے
وقت کی دھوپ میں جل رہا ہے بدن
اپنے آنچل کی ٹھنڈی ہوا دیجئے
مدتوں سے مچلتا ہے سینے میں دل
آج اطیب کی حسرت مٹا دیجئے
Comments
Post a Comment