مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
ہم محو تماشائے سرِ راہ گزر ہیں
حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سو
روتی ہوئی گلیاں ہیں سسکتے ہوئے گھر ہیں
آئے تھے یہاں جن کے تصور کے سہارے
وہ چاند، وہ سورج، وہ شب و روز کدھر ہیں
سوئے ہو گھنی زلف کے سائے میں ابھی تک
اے راہ رواں کیا یہی اندازِ سفر ہیں
وہ لوگ قدم جن کے لئے کاہکشاں نے
وہ لوگ بھی اے ہم نفسو ہم سے بشر ہیں
بِک جائیں جو ہر شخص کے ہاتھوں سرِ بازار
ہم یوسفِ کنعاں ہیں نہ ہم لعل و گہر ہیں
ہم لوگ ملیں گے تو محبت سے ملیں گے
ہم نزہتِ مہتاب ہیں ہم نورِ سحر ہیں
حبیب جالب
Comments
Post a Comment