سجائے رکھا ہے ایسا سراب آنکھوں میں
بکھیر تا ہے جو وہ خواب خواب آنکھوں میں
اُلجھ رہا ہے جو منظر بصارتوں سے مری
مزاجِ وقت کے رُخ کا نقاب آنکھوں میں
خزاں کے دور میں کانٹوں کی حکمرانی ہے
کھٹک رہا ہے جو کھلتا گلاب آنکھوں میں
محبتوں کا مری کیا ثبوت دوں تم کو
تمہارے واسطے لا یا ہوں آب آنکھوں میں
مقام اس سے حسیں اور کیا ہو میرے لئے
پناہ دیجئے مجھ کو جناب آنکھوں میں
نظر کا پھیرنا حق سے، گناہ ہے اطیب
اُتار تا ہے وہ اپنا عتاب آنکھوں میں
Comments
Post a Comment