یہ کیسا خنجر سا میرے پہلو میں لحظہ لحظہ اُتر رہاہے
کہ دل بھی چنگیزی ءِ غمِ جاں کو جیسے تسلم کر رہا ہے
یہ کونسی عمرِ نوح بخشی گئی ہے مجھ کو کہ عہدِ نو میں
گمان اِک ایک پل پہ جیسے صدی صدی کا گزر رہا ہے
لدا پھُندا ہے ہر ایک ساعت اِسی سے آنگن دل و نظر کا
یہی تمّنا کا اک شجر ہے چمن میں جو بارور رہا ہے
دل و نظر کی خموشیوں میں چھنکتے قدموں یہ کون آیا
کہ مثلِ مہتاب نطق میرا، لبوں سے میرے اُبھر رہا ہے
یہ زندگی ہے کہ انتشارِ خرام، ابرِ رواں کا ماجد
یہ کیسا منظر نگاہ میں ہے کہ لحظہ لحظہ بکھر رہا ہے
Comments
Post a Comment