زرا سی رات ڈھل جائے تو شاید نیند آ جائے
زرا سا دل بہل جائے تو شاید نیند آ جائے
ابھی تو کرب ہے بے چینی ہے بے قراری ہے
طبیت کچھ سنبھل جائے تو شاید نیند آ جائے
ابھی تو نرم جھونکوں میں چھپے ہیں تیر یادوں کے
ہوا کا رخ بدل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ ہنستا مسکراتا قافلہ ستاروں کا
زرا آگے نکل جائے تو شاید نیند آ جائے
یہ طوفان آسوؤں کا جو امڈ آیا ہے پلکوں تک
کسی صورت یہ ٹل جائے تو شاید نیند آ جائے
Comments
Post a Comment