یارو کہاں تلک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے ہاتھ اپنا جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے تنہا تو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سر محضر لگاؤں میں
اُس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اُسے قتیل گلے لگاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں
دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے ہاتھ اپنا جلاؤں میں
سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں
اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں
بدنام میرے قتل سے تنہا تو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سر محضر لگاؤں میں
اُس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اُسے قتیل گلے لگاؤں میں
Comments
Post a Comment