Skip to main content

Rasta koi safar koi musafat koi

راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی


سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی


جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی


میں نے دنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا
کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت کوئی


سرمئی شام کے ہمراہ پرندوں کی قطار
دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بشارت کوئی


بجھتی آنکھوں کو کسی نور کے دریا کی تلاش
ٹوٹتی سانس کو زنجیر ، ضرورت کوئی


تو نے ہر نخل میں کچھ ذوقِ نمو رکھا ہے
اے خدا میرے پنپنے کی علامت کوئی

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay