دو حجاج کرام کی آپس میں گفتگو، تھوڑی سی طویل ہے، لیکن پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا وقت ضایع نہیں ہوا۔
حاجی سعید صاحب فریضہ حج ادا کرنے کے بعد وطن واپسی کے لیے ایئرپورٹ پر بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔ ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک اور حاجی صاحب ان کے پاس آ بیٹھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا، نام وغیرہ پوچھا اور انتظار کی کوفت ختم کرنے کے لیے دوسرے حاجی صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ:
برادر سعید! میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔ بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر بھی خوب صدقات دیئے اور خیراتیں کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔
سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور مسنون طریقے سے حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا:
حجا مبرورا ، و سعیا مشکورا، و ذنبا مغفورا ان شاء اللہ
(اللہ کرے آپ کا حج مقبول ہو، آپ کی سعی مشکور ہو اور آپ کے گناہ معاف کر دیئے جائیں)
اس شخص نے مسکرا کر سعید صاحب کی نیک تمناؤں کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے حج قبول کرے، تو سعید صاحب، کیا آپ کے حج کا بھی کوئی خاص قصہ ہے ؟
سعید نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا:
ہاں جی، میرے حج کے پیچھے بھی ایک طویل قصہ ہے مگر میں یہ قصہ سنا کر آپ کے سر میں درد نہیں کرنا چاہتا۔
یہ سن کر وہ شخص ہنس پڑا اور کہا؛
ارے سعید صاحب، آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے پاس سوائے انتظار کے اور کوئی کام ہی نہیں ، اب بھلا آپ کے قصے سے ہمارا وقت کٹے گا یا مجھے کوفت ہوگی؟
سعید صاحب مسکرا دیئے اور بولے؛
جی، انتظار، انتظار ہی تو میرے قصے کی ابتدا ہے کہ اتنے طویل سالوں تک حج کی خواہش کو دل میں لئے کام میں لگا رہا۔ میں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں۔ آج سے تیس سال پہلے کام کرنا شروع کیا تھا، جب ریٹائرمنٹ کے نزدیک پہنچا اور بچوں کی شادیوں اور دیگر فرائض سے فراغت پائی اور کچھ ذہنی آسودگی ملی تو اپنی باقی کی جمع پونجی دیکھی۔ یہ پیسے مجھے حج کیلئے کافی دکھائی دیئے تو سوچا کیوں ناں اب اس حج کے فریضے سے سبکدوش ہو لوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب استطاعت ہو تو اس فرض کی ادائیگی میں تآخیر اچھی نہیں ہوتی ، کیا پتہ کہ کب سانس ساتھ چھوڑ جائے۔
اس آدمی نے اپنی بھرپور توجہ کا احساس دلانے کیلئے اپنی طرف سے بات میں اضافہ کیا۔
جی کیوں نہیں، جب استطاعت ہو تو یہ فرض ضرور ادا کیا جائے۔
سعید صاحب نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا؛
جی سچ فرمایا آپ نے۔
میں نے اسی دن ہی ہسپتال جاتے ہوئے بنک سے سارے پیسے نکلوا لئے کہ شام کو سیدھا جا کر حج کیلئے داخلہ کرا دوں اپنا۔
اسی دن ہسپتال جا کر میری ملاقات ایک مریض بچے کی ماں سے ہوئی ۔ اس عورت کا بچہ ہمارے ہسپتال میں اور میری ہی زیر نگرانی ایک معذوری کے علاج کے سلسلے میں داخل تھا۔ غم اور لاچاری کے تاثرات اس عورت کے چہرے پر عیاں تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولی، اچھا سعید بھائی، اللہ حافظ۔، یہ میری آپ سے اس ہسپتال میں آخری ملاقات ہے۔
یہ سن کر مجھے اچھی خاصی حیرت ہوئی اور سب سے پہلی جو بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ لگتا ہے کہ یہ عورت میرے علاج سے مطمئن نہیں اور بچے کو کسی اور ہسپتال لے جانا چاہتی ہے۔ پھر میں نے یہ بات اس سے پوچھ بھی لی۔
میری یہ بات سن کر وہ عورت فورا بول اٹھی؛ نہیں سعید بھائی، ایسی کوئی بات نہیں، آ پ تو میرے بیٹے کیلئے کسی بھی شفیق باپ سے سے زیادہ مہربان ہیں، جب ہم ہر طرف سے مایوس ہو چکے تھے تو آپ کی حوصلہ افزائی سے یہاں ہم نے اتنا اچھا علاج کروایا ہے۔
اب وہ شخص درمیان میں بول پڑا؛
عجیب بات ہے! اگر وہ عورت آپ کے علاج سے اتنی ہی مطمئن تھی اور اُسکا بیٹا بھی روبہ صحت تھا تو وہ پھر کیوں علاج چھوڑ کر جانا چاہ رہی تھی؟
سعید صاحب نے جواب دیا؛
جی مجھے بھی یہ بات کافی عجیب سی لگ رہی تھی۔ اس لئے میں نے اس سے اجازت لیکر معاملے کو مزید جاننے کیلئے اپنا رخ ہسپتال کے انتظامی شعبے کی طرف کر لیا۔ جاتے ہی میں نے اکاؤنٹنٹ سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں ہسپتال چھوڑنا چاہ رہے ہیں؟ ان کے کیس میں کہیں میری طرف سے کوئی کمی و کوتاہی تو نہیں ہوئی؟ اکاؤنٹنٹ نے کہا؛ نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہوا یوں ہے کہ بچے کے باپ کی ملازمت جاتی رہی ہے اور یہ لوگ اب شدید مالی پریشانی اور مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ ہسپتال میں بچے کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرنا اب ان کے بس میں نہیں رہا، اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بچے کا معاملہ اس کے نصیب اور مقدر پر چھوڑا جائے اور علاج کو ترک کر دیا جائے۔
وہ شخص بولا:
لا حول ولا قوۃ الا باللہ، کتنی لاچار تھی یہ ماں۔ لیکن کیا کیا جائے اس وقت دنیا جس معاشی بحران سے گزر رہی ہے کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اچھی اچھی شہرت رکھنے والی کمپنیاں اور بڑے بڑے ادارے بھی اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ تو پھر سعید صاحب، آپ نے کیا کردار ادا کیا اس معاملے میں؟
سعید صاحب نے جواب دیا؛
اکاؤنٹنٹ کے کمرے سے نکل کر میں فورا ہی ہسپتال کے انتظامی سربراہ کے پاس گیا اور اسے گزارش کی کہ وہ بچے کا علاج ہسپتال کے بجٹ سے جاری رکھیں، لیکن اس نے شدت کے ساتھ میری بات رد کر دی۔ بلکہ اس نے تو مجھے یہاں تک بھی کہا کہ یہ ہسپتال کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے جو غریبوں اور مسکینوں کا مفت میں علاج کرتا رہے۔ ہم نے ہسپتال کو منافع میں چلانا ہے اور ہمارا ایک نام اور ہمارا ایک معیار ہے، جسے ہمارے پاس علاج کرانا ہے کرائے اور جسے جانا ہے چلا جائے۔
میں مدیر کے کمرے سے ٹوٹے دل کے ساتھ نکلا۔ میرا دل ابھی تک اس عورت کے چہرے پر آئی حسرت و یاس کے تاثرات پر اٹکا ہوا تھا۔ میں جانتا تھا کہ بچے کا علاج جاری نا رکھا گیا تو معاملہ پھر صفر تک جا پہنچے گا اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ بچے کے علاج میں مزید پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جائیں۔ میرا دل تھا کہ خون کے آنسو رو رہا تھا اور میں اپنی بیچارگی پر بھی کڑھ رہا ۔ یہ ٹھیک تھا کہ میں نے اس ہسپتال میں ایک اچھے مشاہرے پر کام کیا تھا مگر کیا میں اس تیس سال کی خدمت کے عوض ایک مریض کا مفت علاج بھی تجویز نہیں کر سکتا تھا؟ میں انہین سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ لا شعوری طور میرا ہاتھ اپنی جیب میں گیا جس میں میں نے آج صبح بنک سے حج داخلہ کیلئے نکلوائے ہوئے پیسے ڈال رکھے تھے۔ پیسوں کو ہاتھ لگتے ہی میں نے اپنا منہ آسمان کی اٹھا دیا اور اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا؛
اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں تیرے گھر کا حج کرنے اور تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت کرنے کی کتنی تڑپ ہے۔ میں نے تو اس مقصد کیلئے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اور کمائی اکٹھی کر کے ارادہ باندھ بھی لیا تھا ۔ اب تو میرے اس شوق کی تکمیل میں بس گھنٹے اور منٹ ہی حائل تھے ۔ مگر میں تیرے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ توڑنے جا رہا ہوں، مجھے معاف کر دینا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تیری ذات بہت غفور الرحیم ہے ۔
میں نے اسی وقت اکاؤنٹنٹ کے پاس جا کر اپنے سارے پیسے اس بچے کے علاج کیلئے آئندہ چھ مہینوں کے ایڈوانس علاج کیے طور پر جمع کرا دیئے۔ میں نے اکاؤنٹنٹ سے وعدہ لیا کہ عورت سے کہے گا کہ ہمارے ہسپتال میں ایسی صورتحال کیلئے ایک سپیشل فنڈ ہوتا ہے جس سے اس کے بیٹے کا علاج کیا جا رہا ہے اور اس کو یہ نا معلوم ہونے دے کہ یہ پیسے ہسپتال نے نہیں بلکہ میں نے ادا کیئے ہیں۔
اب اس آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے، اس نے پوچھا؛ سعید بھائی، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی اس نیکی کو قبول کرے اور دوسروں کو بھی آپ کی قائم کردہ اس مثال پر چلنے کی توفیق دے۔ اچھا ایک بات تو بتائیں کہ آپ نے تو سارے پیسے بچے کے علاج کیلئے جمع کرا دیئے تھے پھر حج پر کس طرح آ پہنچے؟
سعید صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا؛
لگتا ہے کہ اپ اس قصے کا اختتامیہ جاننے کیلئے بے چین ہو رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی دلچسپی اب اس قصے سے ختم ہو رہی ہو؟ اچھا خیر، میں آپ کو اس قصے کا بقیہ حصہ جلدی جلدی سناتا ہوں۔ میں اس دن نہایت ہی غمگین اپنے گھر پہنچا کہ میں نے اپنی زندگی کی آخری خواہش حج کی ادائیگی کو پورا کرنے کا موقع ضائع کر دیا تھا۔ ہاں کچھ خوشی بھی تھی کہ میں نے ایک خاندان کے مصیبت کے لمحات میں انکی مدد کی تھی۔ میں اس رات روتے روتے سویا تو میرے آنسو میرے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ میں نے نیند میں خواب دیکھا کہ میں حرم میں موجود ہوں اور کعبہ شریف کے گرد طواف کر رہا ہوں، لوگ بڑھ بڑھ کر مجھ سے سلام کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں سعید صاحب، حج مبارک ہو، آپ نے زمین پر اپنا حج کرنے سے پہلے ہی آسمان پر حج کر لیا ہے۔ بلکہ لوگ مجھ سے اپنے بارے میں دعا کرنے کو بھی کہہ رہے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے حج بھی قبول فرمائے۔ اور جب میں نیند سے جاگا تو ایک عجیب قسم کی خوشی اور مسرت کے احساس سے ہمکنار تھا۔ میں اپنی طرف سے امید کھو بیٹھا تھا کہ کبھی کعبہ شریف کی زیارت بھی کر پاؤنگا مگر کم از کم میں نے نیند میں تو یہ زیارت کر ہی لی تھی۔ خیر، میں نے اللہ کی اس مہربانی پر بھی شکر ادا کیا اور جو کچھ ہو چکا تھا اس پر راضی رہنے کا عہد کیا۔ میں ابھی تک نیند کے خمار میں ہی پڑا اپنے حسین خواب کو یاد کر کے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف ہسپتال کا وہی مدیر بول رہا جس نے کل مجھے نخوت کے ساتھ انکار کیا تھا۔ اس کے لہجے سے التجا کا تاثر عیاں تھا ۔ میرے سلام کرنے پر اس نے کہا، ڈاکٹر سعید، میں جانتا ہوں کہ آپ میرے کل کے رویئے پر ناراض ہونگے مگر میں پالیسی کے ہاتھوں مجبور تھا۔ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آن پڑی ہے، انکار مت کیجئے گا۔ ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت حج پر جانا چاہتی ہے مگر ان کے ساتھ ذاتی طبیب کے جانے کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس کے ذاتی معالج کا فریضہ پہلے تو اس کی بیوی سر انجام دیتی تھی مگر آجکل وہ پورے دنوں سے ہے اور سفر پر نہیں جا سکتی۔ یہ آدمی ہمارے ہسپتال میں نصف کا شریک ہے۔ اسے ناراض کرنا گویا میرا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ اس نے فوری طور پر مجھ سے ایک نام مانگا ہے اور میرے ذہن میں آپ کا نام آیا ہے، آپ اس شخصیت سے کافی ذہنی مطابقت رکھتے ہیں، مہربانی کر کے انکار مت کیجیئے گا؟
میں نے تھوڑے سے تامل کے بعد پوچھا؛
اس شخص کے ساتھ میری رفاقت محض طبیب اور ذاتی معالج کی سی ہی ہو گی یا وہ مجھے حج ادا کرنے کا بھی موقع دے گا؟
مدیر نے بلا توقف کہا؛ ڈاکٹر سعید صاحب، آپ اس شخصیت کے ساتھ اسی کے نان و نفقہ پر جائیں گےاور وہ آپ کو حج ادا کرنے کا بھی پورا پورا موقع دے۔
اور جس طرح کہ آپ دیکھ رہے ہیں میں نے بہت ہی احسن طریقے سے حج ادا کیا ہے ۔ صرف یہی ہی نہیں اس آدمی نے مجھے میری خدمات کے عوض ایک معقول رقم بھی ادا کی ہے۔ اس کے ساتھ گزرے فرصت کے لمحات میں، میں نے اسے اس بچے اور عورت کا قصہ سنایا تو اس نے فورا ہی ہسپتال کو احکامات بجھوائے کہ اس بچے کا آئندہ علاج مفت اور ہسپتال کے خرچہ پر کیا جائے۔ بلکہ اب تو اس صاحب کے حکم سے ہسپتال میں آنے والے ایسے کیسز کیلئے باقاعدگی سے ایک فنڈ مختص کیا گیا ہے، مزید اس نے بچے کے والد کو میں اپنی کسی کمپنی میں اس کی قابلیت کے مطابق ایک ملازمت بھی دی ہے۔
اس آدمی نے اٹھ کر سعید صاحب کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا اور کہا؛
سعید صاحب، اللہ کی قسم، میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اتنی خجالت محسوس نہیں کی جتنی آج کر رہا ہوں۔ میں ایک کے بعد ایک حج کر کے یہی محسوس کرتا رہا کہ بہت بڑا معرکہ سر کر رہا ہوں۔ میں یہ سوچتا تھا کہ ہر بار حج کرنے سے اللہ کے نزدیک میرا مرتبہ بلند سے بلند ہوتا جا رہا ہوگا۔ لیکن آج میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو بہت ہی حقیر سمجھ رہا ہوں۔ آپ کا یہ ایک حج میرے دس نہیں بلکہ میرے حج جیسے ایک ہزار حج سے زیادہ بہتر حج ہے۔ میں پیسے خرچ کر کے حج پر جاتا رہا ور آپ کو اللہ نے خود بلوا کر حج کروایا۔
سعید صاحب کو اس آدمی کی بڑبڑاہت صاف سنائی دے رہی تھی جو دوسری طرف منہ کئے کہہ رہا تھا ؛
اے اللہ مجھے بخش دے، اے اللہ مجھے بخش دے۔
عربی سے ماخوذ و مترجم از محمد سلیم
Comments
Post a Comment