Skip to main content

Mujay tum yaad ate ho



مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخو رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بےسبب دوری سلگتی ہے
یا
جب مری آنکھوں کے صحرا میں تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

فرحت عباس شاہ

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay