دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ھمکو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ھم آسماں ہلا دیتے
ھمیں یہ زعم رھا اب کے وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ھر بار ھم صدا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسکو حال سناتے اسے رلا دیتے
تمہیں بھلانا ھی اول تو دسترس میں نہیں !
جو اختیار بھی ھوتا تو کیا بھلا دیتے ؟
ھم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ھمارے بس میں جو ھوتی تو ھم دلا دیتے
تمہاری یاد نے کوئی جواب ھی نہ دیا
میرے خیال کے آنسو رھے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر ھونٹ تو ھلا دیتے .
Comments
Post a Comment