Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2012

Jawab e shekwa

جواب شکوہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئی بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئی چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی' پوشيدہ يہيں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو آئی آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا...

Aitemad ki dunya

اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے

karo jo baat karni hai

کرو، جو بات کرنی ہے اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا بس تمہیں سننے کی خاطر گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی تو ایسا ہو نہیں سکتا زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے جِسے تُم وقت کہتے ہو دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے یہ کوئی خواب ہے جیسے نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے کرو، جو بات کرنی ہے

Udass rehna naseeb apna ata tumhari

اُداس رہنا نصیب اپنا، عطا تُمہاری ھے بے نیازی قُبول، گر ھے اَدا تُمہاری ہم اب جو رُوٹھے تو اُس نگر کے مُقیم ھوں گے جہاں سے واپس نہ لا سکے گی صدا تُمہاری محبّتوں کے نصیب میں ھیں اُجاڑ شامیں ہمیں بھی آخر بچا نہ پائی دُعا تُمہاری اَب اِس قدر بھی نہ شدّتوں سے مِلا کرؤ تُم کہیں نہ ہم کو اسیر کر دے وفا تُمہاری

Yaro negah yar ko yaron se ghila hay

یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھیجاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا اک لمحہ ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی صحراؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں بیکار ہوں اور کار گزاروں سے گلہ ہے بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا ان شوخ نگاہوں کے اشاروں سے گلہ ہے شاعر: جون ایلیا

ya rub lab e khamosh ko aisa jamal dy

یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے سوزِ درونِ قلب کو اتنا کمال دے جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات پھر مطمئن وجود کو روحِ غزال دے وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرفِ پُر اثر اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں راحت نہیں ، تو مجھ کو بقائے ملال دے تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبینِ دل اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے

Wehshat ka asar khwaab ki tabeer main hota

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا اک عالم خوبی ہے میسر مگر اے کاش اس گل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا اس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر اک حلقہ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا مہتاب میں اک چاند سی صورت نظر آتی نسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا مرتا بھی جو اس پر تو اسے مار کے رکھتا غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا اک قامتِ زیبا کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہے ہوتا تو میرے حرفِ گرہ گیر میں ہوتا

Nahi zameen pe kisi ka bhi aitbar mujay

نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے کہا تھا کس نے کہ افلاک سے اتار مجھے بہ سطحِ کوزہ گرِ دہر چیختا ہے کوئی میں جیسے حال میں ہوں چاک سے اتار مجھے بس ایک دن کے لئے تو مری جگہ آ جا بس ایک دن کے لئے سونپ اختیار مجھے تجھے کہا تھا کہ لو دے اٹھے گی لاش مری تجھے کہا تھا کہ تو روشنی میں مار مجھے تری صدا کے پلٹنے سے قبل پہنچوں گا تو ایک بار بہ جذبِ جنوں پکار مجھے کبھی تو ماں کی طرح ٹوٹ کر ملے اختر کبھی تو دوڑ کے سینے لگائے دار مجھے

wo koyi aur na tha chand khushk pattay the

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے تمام عمر وفا کے گنہگار رہے یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے شبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میں ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھ شاعر: احمد ندیم قاسمی

Yahan har waqt mela rahega

یہاں ہر وقت یہ میلہ رہے گا مگر یہ دل یونہی تنہا رہے گا جلیں گے جب تلک یہ چاند تارے ہمارے عشق کا چرچا رہے گا یہ دل بھی ڈوب جائے گا کسی دن چڑھا جب حُسن کا دریا رہے گا خلاؤں میں زمیں گم ہو گئی ہے اکیلا آسماں روتا رہے گا تجھے یوں بھولنا ممکن نہیں ہے ابھی دل میں تِرا سودا رہے گا خوشی کی لاش کاندھوں پر اٹھائے یہ دکھ کا کارواں چلتا رہے گا ترے آنے کی کیا خوشیاں منائیں لگا جانے کا جب دھڑکا رہے گا شاعر: احمد فواد

Lab par kisi ka bhi ho dil main tera naqsha hay

لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے بے ترے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر و سکوں تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے نیلے پربت، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو تجھ سے اپنے جی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا یوسف تو بازار وفا میں ایک ٹکے کو بکتا ہے لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول لے جانی اب آدھی شب ہے چار طرف سناٹا ہے طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے جاتے ہیں تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے یا تو آج ہمیں اپنا لے یا تو آج ہمارا بن دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے شاعر: ابن انشاء

Yun to kehny ko buht log shanasa mere

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

Muhabbatain lut gaye jazbat ne dam torr diya

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا ہر مسرّت غم دیروز کا عنوان بنی وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا اَن گِنت محفلیں محروم ِچراغاں ہیں ابھی کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا جن سے افسانہ ہستی میں تسلسل تھا کبھی ان محبّت کی روایات نے دم توڑ دیا جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گی جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

Dard ka kamra alag hota hay

درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے ہم کہ جب بھی کسی بھولی ہوئی دہلیز سے ٹھوکر کھائیں درد کے کمرے میں جا گرتے ہیں نت نئے دھوکے میں مصروف رکھا خود کو ہم سمجھدار بھی، پاگل بھی بنے ہیں اکثر ہم ہنسے بھی ہیں، اداسی بھی بہت جھیلی ہے عشق کے شک میں بتائے ہیں بہت دن ہم نے دل کو جھانسے بھی دیے روز بہت رونق کے روح کو رنگ دیے ہیں لیکن وہ جو آنسو کبھی آباد ہوا تھا نا نصیبوں کی کسی بستی میں کھینچ لاتا رہا واپس اسی کمرے میں ہمیں یہ الگ کمرہ کسی کھوہ کی مانند بہت گہرا ہے اک عجب رنگ کی خاموشی ہے دیواروں پر کو نوں کھدروں میں بہت شور ہیں لاچاری کے فرش پر ہجر کا غالیچہ بچھا رہتا ہے چھت پہ جالے سے لگے ہیں کسی بیماری کے صحن کے دکھ کی طرف ۔۔۔۔۔۔ مین دروازے کے ڈر کی جانب ۔۔۔۔ درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے ہم جہاں آتے ہیں کمرہ بھی چلا آتا ہے ہم چلے جائیں تو کمرہ بھی چلا جاتا ہے ۔۔۔۔ اس کے باسی کے لئے خود فریبی سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا ہے

main nara e mastana ,main shokhi randana

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ شب چراغ - واصف علی واصف

zavia baab 3 ilam pehm aur hosh

جو شخص اپنے اندر ہی اندر گہرا چلا جاتا ہے، وہی اوپر کو اٹھتا ہے اور وہی رفعت حاصل کرتا ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ جو درخت جس قدر گہرا زمین کے اندر جائیگا، اسی قدر اوپر و جا سکے گا، اور اسی قدر تناور ہو گا۔ ہم اپنی ساری زندگی اوپر ہی اوپر، اپنے خول کو، اور اپنے باہر کو جاننے پر لگا دیتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل انسان ہمارے اندر رہتا ہے۔ جب میں اپنے اندر نگاہ مارتا ہوں تو اس کے اندر کچھ الفاظ، کچھ تصورات، کچھ خیال، کچھ یادیں، کچھ شکلیں اور کچھ خواب پاتا ہوں۔ زاویہ: 3، باب "علم فہم اور ہوش"، صفحہ 295 سے اقتباس