Skip to main content

Posts

Showing posts from March, 2013

Jugnoo, Gohar, Charaagh, Ujaley Tou De Gaya

جگنو، گُہر، چراغ، اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اُس کے گرد میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا شاید کہ فصلِ سنگ زنی کچھ قریب ہے وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا اہلِ طلب پہ اُس کے لیے فرض ہے دُعا خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا محسن اُسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر دُنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا

Baaghi Men Aadmi Se, Na Munkir Khuda Ka Tha

باغی میں آدمی سے, نہ مُنکر خدا کا تھا درپیش مسئلہ مری اپنی اَنا کا تھا گُم صُم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں شاید وہ منتظر کسی اندھی ہَوا کا تھا اپنے دُھویں کو چھوڑ گیا آسمان پر بجھتے ہوئے دیے میں غرور انتہا کا تھا دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخِ بے لباس دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا؟ ورنہ مکانِ ِتیرہ کہاں‘ چاندنی کہاں؟ اُس دستِ بے چراغ میں شعلہ حنا کا تھا میں خوش ہُوا کہ لوگ اکٹھے ہیں شہر کے باہر گلی میں شور تھا لیکن ہوا کا تھا اُس کو غلافِ روح میں رکھّا سنبھال کر محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا  

Apne Ehsaas K Sab Rung Utar Jane Do

اپنے احساس کے سب رنگ اتر جانے دو میری امید میرے خواب بکھر جانے دو اپنے آنگن میں چراغوں کو جلائو نہ ابھی میرے آنگن میں سیاہ رات اتر جانے دو بڑی مشکل سےملا ہےمجھےمیرےگھرکاپتہ راستو ! اب تو نہ الجھو۔۔۔مجھے گھر جانے دو جن کے آنے کا بہت شور ہوا تھا ہر سو انہی لمحوں کو چپ چاپ گزر جانے دو میری بربادی کا الزام نہ آئے تم پر میرے حالات کو کچھ اور بگڑ جانے دو  

khwaab nagar hy ankhain koly daik raha hun

خواب نگر ہے آنکھیں کھولے دیکھ رہا ہوں اُس کو اپنی جانب آتے دیکھ رہا ہوں کس کی آہٹ قریہ قریہ پھیل رہی ہے دیواروں کے رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں کون مِرے جادو سے بچ کر جا سکتا ہے! آئینہ ہوں، سب کے چہرے دیکھ رہا ہوں دروازے پر تیز ہواؤں کا پہرا ہے گھر کے اندر چُپ کے سائے دیکھ رہا ہوں جیسے میرا چہرا میرے دُشمن کا ہو آئینے میں خود کو ایسے دیکھ رہا ہوں منظر منظر ویرانی نے جال تنے ہیں گلشن گلشن بِکھرے پتے دیکھ رہا ہوں منزل منزل ہَول میں ڈُوبی آوازیں ہیں رستہ رستہ خوف کے پہرے دیکھ رہا ہوں شہرِ سنگدلاں میں امجد ہر رستے پر آوازوں کے پتھر چلتے دیکھ رہا ہوں امجد اسلام امجد

tum mere dil ki khalish ho lakin

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں جسم بھی جس کا نہیں ، دل نہیں ، چہرا بھی نہیں خال و خد جس کے مجھے ازبر ہیں ، دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو راستہ، شیشے کی دیوار کے پار گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو اپنے ہی کان میں اک سرگوشی لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے بادِ حیراں سے اڑانے کے لیے موجۂ غم سے مٹانے کے لیے دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادۂ جاں وہی اک کہنہ اداسی لے کر زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ثمینہ راجہ

us ne sakoot shab main bhi apna payam rak diya

اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی اس نے جو پھیر لی نظر میں‌نے بھی جام رکھ دیا اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا احمد فراز

Ajab Taqazay Hen Chahaton K

عجب تقاضے ہیں چاھتوں کے بڑی کٹھن یہ مسافتیں ھیں میں جس کی راھوں میں بچھ گیا ھوں اُسی کو مجھ سے شکایتں ھیں شکایتں سب بجا ھیں لیکن میں کیسے اُس کو یقین دلاؤں جو مجھ کو جاں سے عزیز تر ھے اُسے بھلاؤں تو مر نہ جاؤں میں خاموشی کی انتہا میں کہاں کہاں سے گزر گیا ھوں اُسے خبر بھی نہیں ھے شاید میں دھیرے دھیرے بکھر گیا ھوں

ab konse mosam se koye aas lagaye

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے شاخیں ہیں تو وہ رقص میں ، پتّے ہیں تو رم میں پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے انگور کی بیلوں پہ اُتر آئے ستارے رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے پروین شاکر

hisar e zat se baher nikal ke daikhtey hn

حصارِ ذات سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں بدلنا گر ہے ضروری بدل کے دیکھتے ہیں انہیں ہے فخر کہ وہ ساتھ ساتھ وقت کے ہیں تو ہم بھی وقت کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں ----- hisar e zat se baher nikal ke daikhtey hn badalna gr hae zroori badal ke daikhtey hn. unhain hae fakhar,k woh sath sath waqt k hn tu hm bhi waqt k sanchey main dhal k daikhtey hn