Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2013

Aghrcha hum ja rahe hain mehfil se nala o dil faghar ban kar

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر بہار کی بدنصیب راتیں بُلا رہی ہیں چلے بھی آؤ کسی ستارے کا رُوپ لے کر، کسی کے دل کا قرار بن کر تلاشِ منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورتِ اعتبار بن کر غرورِ مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے کسی کی آنکھوں کا نُور ہو کر، کسی کے دل کا قرار بن کر دیارِ پیرِ مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر خُدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر

Baaz ghasht

ایک لڑکا اپنے باپ کے ہمراہ پہاڑوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر پڑا۔ اُسے چوٹ لگی تو بے ساختہ اُس کے حلق سے چیخ نکل گئی! ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ اُس لڑکے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسے پہاڑوں کے درمیان کسی جگہ یہی آواز دوبارہ سنائی دی ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ تجسس سے وہ چیخ پڑا ’’تم کون ہو؟ اُسے جواب میں وہی آواز سنائی دی ’’تم کون ہو؟‘‘ اس جواب پر اُسے غصہ آگیا اور وہ چیختے ہوئے بولا، ’’بزدل!‘‘ اُسے جواب ملا ’’بزدل!‘‘ تب لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اُس کا باپ مسکرا دیا اور بولا ’’میرے بیٹے! اب دھیان سے سنو!‘‘ اور پھر باپ نے پہاڑوں کی سمت دیکھتے ہوئے صدا لگائی ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ آواز نے جواب دیا ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ وہ شخص دوبارہ چیخ کر بولا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ آواز نے جواب دیا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ لڑکا حیران رہ گیا، لیکن اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تب اُس کے باپ نے اُسے سمجھایا ’’لوگ اِسے’’بازگشت‘‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ زندگی ہے۔ یہ تمھیں ہ

Chewanti aur insan

کہتے ھیں کہ کسی نے ایک چیونٹی سے پوچھا کہ تمہاری خوراک کتنی ھے..؟ چیونٹی نے جواب دیا کہ سال بھر میں گندم کا ایک دانہ اسکی خوراک ھے.. اس بندے نے تجرباتی طور پر اس چیونٹی کو ایک شیشی میں بند کردیا اور اسکے ساتھ ھی ایک دانہ گندم بھی شیشی میں ڈال دیا.. جب ایک سال گزرنے کے بعد اس نے شیشی کا معائنہ کیا تو کیا دیکھتا ھے کہ چیونٹی نے آدھے سے بھی کم دانہ کھایا ھے جس پر اس بندے نے چیونٹی سے کہا.. " تم تو کہتی تھیں کہ تمہاری خوراک ایک دانہ گندم ھے مگر تم نے تو بہت کم کھایا.. اسکی کیا وجہ ھے..؟ چیونٹی نے جواب دیا.. " اے انسان ! جب تک میں اللہ کی زمین پر آزاد پھرا کرتی تھی تب مجھے اپنے رزق کے بارے میں کوئی خوف لاحق نہیں تھا.. اس لیئے میں خوب پیٹ بھر کر کھاتی اور کبھی بھوکے پیٹ نہیں سویا کرتی.. مگر جب سے میرا رزق اور آزادی تمہارے ھاتھ میں آگئی تو میں نے سوچا کہ یہ تو انسان ھے جو اپنے ھم جنسوں کا رزق بھی چھین لیتا ھے ' کیا خبر کہ وہ اگلے سال میری خوراک کا بندوبست بھی نہ کرے.. بس اسی خوف کی وجہ سے میں نے اپنی بھوک کم کردی اور باقی گندم کو برے وقت کے لیئے بچا لیا..

Hazrat dawood tayi(R.U)

ایک دن حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ کی خادمہ نے عرض کیا: آپ کے لیے گوشت کا اچھا سا سالن پکاؤں؟ حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں!جی تو میرا بھی چاہتا ھے ۔ اچھا ٹھیک ھے پکا کر لے آؤ؟ خادمہ نے کوشش کرکے بہت اچھا سالن تیار کیا جب وہ گوشت حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ کے سامنے لاگیا تو حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھنا! فلاں شخص کے یتیم بچے کہاں ہیں؟ خادمہ بولی یہیں ہیں۔ یہ سن کر حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ فوراً نے فرمایا: بس پھر یہ گوشت انہھیں دے آؤ خادمہ نے حیران ہو کر کہا: آپ نے اتنی مدت سے گوشت نہیں چکھا ، آپ بھی تو اس میں سے کھالیں اس پر حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا اگر میں یہ گوشت کھالیتا ہوں تو کچھ دیر بعد یہ نجاست بن کر کوڑے میں چلاجائے گا ۔ لیکن اگر اسے یتیم کھائیں گے تو یہ کھانا عرش الٰہی پر جائے گا (یعنی اجر و ثواب ملے گا) اور سارا سالن اٹھا کر یتیم بچوں کو دے دیا اور خود وہی خشک روٹی کے ٹکرے کھا لیے

Daik to lain ke jaan se utta hy

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے! نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میر بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے میر تقی میر

Ghalat fehmian

ﺟﺐ ﻧﺎﺧُﻦ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺐ ﻧﺎﺧُﻦ ﮨﯽ ﮐﺎﭨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ

Makhloot taleem

’’یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے ۔میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسرجمیل واسطی مرحوم تھے، جو پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر حیدرآباد آئے تھے۔ ہماری کلاس میں تقریباً بیس سٹوڈنٹ تھے۔ان میں چھ کے قریب طالبات تھیں۔ اس زمانہ میں طالبات انگریزی ادب فیشن کے طور پر پڑھا کرتی تھیں۔ ہماری کلاس نے پکنک کاایک پروگرام بنایا، لیکن اس پراختلاف ہوگیا کہ لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پکنک منانے جائیں یا الگ الگ؟ یہ معاملہ پروفیسر جمیل واسطی کے علم میں آیاتو انہوں نے رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ "مگریہاں تومخلوط تعلیم ہے۔ واسطی صاحب!" ایک لڑکی نے اٹھ کراحتجاج بھری آواز میں کہا۔ "میں نے کب کہا کہ میں مخلوط تعلیم کاحامی ہوں؟" واسطی مرحوم بولے۔ "سر! یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے۔" وہ بولی۔ واسطی صاحب نے گھوم کرلڑکی کی طرف دیکھا جو ایک معروف، متمول اور فیشن ایبل خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔پھرانہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا: غلام اکبر! تمہاری جیب میں ایک چونّی ہوگی؟ اس عجیب وغر

Dilchasp ishtehar

ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﺑﮍﺍ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺸﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﮐﺮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔۔۔ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻗﺪ، ﮐﯿﻨﺴﺮ، ﮨﭙﺎﭨﺎﺋﭩﺲ، ﮔﺮﺗﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ، ﺑﮯ ﺍﻭﻻﺩﯼ، ﻣﻮﭨﺎﭘﮯ، ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺩ، ﺍﻣﺮﺍﺽِ ﻣﺨﺼﻮﺻﮧ، ﮐﺎﻟﯽ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ، ﮔﺮﺩﻥ ﺗﻮﮌ ﺑﺨﺎﺭ، ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ، ﭘﭩﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﻨﭽﺎﺅ ،ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ، ﮨﺮ ﻣﺮﺽ ﮐﺎ ﺷﺎﻓﯽ ﻋﻼﺝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔۔۔ ﻓﺮﺍﺯ ﺩﻭﺍﺧﺎﻧﮧ ۔۔۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺩﻭﺍﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﯿﮩﻮﺩﮦ ﺳﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺳﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺩﺭﺳﺖ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯾﻀﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺵ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ’’ﺑﮍﺍ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﻓﺮﯼ۔۔۔‘‘ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻻﺋﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻧﻌﺎﻣﯽ ﮐﻮﭘﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ 70 ﺳﯽ ﺳﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ‘‘ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ

Maa ka qaraz

ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ. ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ. ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ - ﺳﺎﺱ ﮨﮯ. ﺑﺎﺕ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ - "ﻣﺎﮞ .. ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ. ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺳﻮﺩ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ. ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ. ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺳﮑﮭﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ !!! "ﺑﯿﭩﺎ _ ﺣﺴﺎﺏ ﺫﺭﺍ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﮯ، ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ. ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﮨﯿﮯ". ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ"-ﻣﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﻱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ". ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺳﺐ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ. ﺑﯿﭩﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﮯ ﻟﯽ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯽ .. ﻣﺎﮞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭨﮫ

Jhote main paisy

••▄•• جوتے میں پیسے ••▄••▀ کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا ۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے ۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کی لگتی تھی طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا ، "ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھردیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔ ...پروفیسر نے جواب دیا ، "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے ، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو ۔ ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے " ۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے ۔ غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگ

Larkian

لڑکیاں شیشہ ھوتی ھیں، اور محبت انکی کمزوری _____ان سے نہیں کھیلتے ، یہ قتل عمد ھے میرے نزدیک شیشے کو معمولی سی بھی بھاپ چھو جائے تو دھند لا جاتا ھے۔ جو ہمارا اور آپ کا ''صرف'' ھوتا ھے وہ انکا ''بس" ھوتا ھے۔