فیض احمد فیض
بیسویں صدی کی اُردو شاعری میں اقبال کے بعد جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیض کا ہے۔ سن تیس کے عشرے میں شروع ہونے والی اُن کی شاعری سن اسّی کی دہائی تک جاری رہی اور یوں اُن کے کلام نے نصف صدی کا عرصہ اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔۔۔ اور یہ کوئی معمولی عرصہ نہ تھا بلکہ حادثات، سانحات اور انقلابات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جس کی مثال تاریخِ عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔
رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا۔۔۔“جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہِ جام اتر آئی ہے“
عکسِ جاناں کو وداع کر کے اُٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
صحنِ زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطحِ ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس کا درد، فراقِ رخِ محبوب کا غم
دور نوبت ہوئی، پھرنے لگے بیزار قدم
زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہلِ زنداں کے غضبناک ، خروشاں نالے
جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے
لذتِ خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر ، مچل کر روئی
دور اُترا کسی تالے کے جگر میں خنجر
سر ٹپکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمنِ جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جناتِ گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بیکار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہے ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
بیسویں صدی کی اُردو شاعری میں اقبال کے بعد جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیض کا ہے۔ سن تیس کے عشرے میں شروع ہونے والی اُن کی شاعری سن اسّی کی دہائی تک جاری رہی اور یوں اُن کے کلام نے نصف صدی کا عرصہ اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔۔۔ اور یہ کوئی معمولی عرصہ نہ تھا بلکہ حادثات، سانحات اور انقلابات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جس کی مثال تاریخِ عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔
رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا۔۔۔“جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہِ جام اتر آئی ہے“
عکسِ جاناں کو وداع کر کے اُٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
صحنِ زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطحِ ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس کا درد، فراقِ رخِ محبوب کا غم
دور نوبت ہوئی، پھرنے لگے بیزار قدم
زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہلِ زنداں کے غضبناک ، خروشاں نالے
جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے
لذتِ خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر ، مچل کر روئی
دور اُترا کسی تالے کے جگر میں خنجر
سر ٹپکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمنِ جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جناتِ گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بیکار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہے ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
Comments
Post a Comment