Skip to main content

Posts

Showing posts from June, 2012

Shab e zulmat ka ta pechla peher

شب ظلمت کا تھا پچھلا پہر اور رات بھی بے حد کالی تھی نہ وقت ہی کٹتے دکھتا تھا ...نہ نیند ہی آنے والی تھی اشکوں سے گریزاں آنکھوں میں ہالے تھے گذشتہ راتوں کے اثرات عیاں تھے چہرے پر اس وعدہ شکن کی باتوں کے اس کے محتاط رویوں نے میری ذات کی اور ہوا دی تھی اور ذات کی کھوج نے اندر سے میری اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اے خواب نہ اب صورت دکھلا نہیں سما یہ کھیل تماشوں کا جہاں آگ تھی بے کل جذبوں کی وہاں رقص ہے زندہ لاشوں کا بہتر ہے مان جو رہنے دے اس کے مجبور حجابوں کا بہتر ہے اور نہ جھانسا دے نیندوں کو وصل کے خوابوں کا جو زخم رفوگر سے نہ سلے وہ زخم کہاں اب سلنے ہیں جو لوگ بچھڑ گئے راہوں میں وہ لوگ کہاں اب ملنے ہیں

Mujay manzoor hai maskan magar basti nahi sehra

مجھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا کہ دنیا کے جھمیلوں پر، یہ دل راضی نہیں ہوتا وہ کب تک روٹھتا رہتا اُسے کب تک مناتے ہم؟ اُسے اِس بار جانا تھا تو ہم نے بھی نہیں روکا ہاں سازِ دل شکستہ ہے، مگر یہ بھی غنیمت ہے سُنا ہے خوابِ جاں ٹوٹے تو کچھ باقی نہیں رہتا تری راہوں پہ چلنے سے، جگر کا خون کرنے سے زمانے نے بہت روکا دلِ وحشی نہیں سمجھا یہ کج بحثی کے جو قصے مری نسبت ہیں ، جھوٹے ہیں مرا قاتل گواہ میں نے گناہ تک بھی نہیں پوچھا اجر صبرِ مسلسل کا یہ آنسو کیوں ڈبودے گا؟ نہیں نکلا جو صدیوں سے تو کیا اب بھی نہیں بہتا؟ سخن ور ایک لمحہ لفظوں کا جادو جگاتا ہے مگر مجھ کو شکایت ہے، مرے دل کی نہیں کہتا

Rasta koi safar koi musafat koi

راستہ کوئی سفر کوئی مسافت کوئی پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی میں نے دنیا کو سدا دل کے برابر سمجھا کام آئی نہ بزرگوں کی نصیحت کوئی سرمئی شام کے ہمراہ پرندوں کی قطار دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بشارت کوئی بجھتی آنکھوں کو کسی نور کے دریا کی تلاش ٹوٹتی سانس کو زنجیر ، ضرورت کوئی تو نے ہر نخل میں کچھ ذوقِ نمو رکھا ہے اے خدا میرے پنپنے کی علامت کوئی

Khuda kary dil sada ko kuch pata na lagy

خدا کرے دل سادہ کو کچھ پتا نہ لگے سوادِ شہر کی اس کو کبھی ہوا نہ لگے وہ اپنے دل میں سمندر چھپائے پھرتا ہے کہ جس کی آنکھ میں آنسو بھی اک روا نہ لگے یہ فاصلے بھی عجب کچھ فریب دیتے ہیں ملا نہیں ہے جو صدیوں سے وہ جدا نہ لگے ہم اس طرح سے چلو راستہ بدل جائیں بچھڑتے وقت کسی کو بھی کچھ برا نہ لگے یہ ایک جبرِ مسلسل کہاں تلک میں سہوں کہ آئینہ بھی جو دیکھوں اسے بھلا نہ لگے ہمارے نام پہ سارے گناہ لکھ ڈالو تمہارے نام پہ اب بھی کوئی خطا نہ لگے ہمارا حال وہی کر دو جو کہ عبرت ہو دعا بھی مانگیں تو ہم کو کوئی دعا نہ لگے L

Hazrat ke liye bhi dil main hamdardi paida kary

Mohabbat kuch nahi hote

محبت کچھ نہیں دیتی سوائے خامشی کے جو رگوں میں بہتی رہتی ہے سوائے ایک ویرانی جو دل پہ چھائی رہتی ہے سوائے درد رسوائی جو چاروں سمت ہوتا ہے سوائے ایک اذیت جو ساری عمر رہتی ہے ہم اپنا سر اٹھا کر چل نہیں سکتے گناہ کرتے نہیں پھر بھی گنھگاروں میں شامل ہیں روایت کے اسیروں کو محبت کچھ نہیں دیتی

Wahi hua na

وہی ہوا نا کہا نہیں تھا کہ عہد الفت،سمجھ کے باندھو نبھا سکو گے؟ مجھے سمے کی تمازتوں سے بچا سکو گے؟ بہت کہا تھا صباحتوں میں بہل نہ جانا مجھے گرا کے سنبھل نہ جانا بدلتی رت میں بدل نہ جانا بہت کہا تھا بہل گئے نا کہا نہیں تھا سنبھل گئے نا وہی ہوا نا بدل گئے نا

Dard ka kamra alag hota hay

درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے ہم کہ جب بھی کسی بھولی ہوئی دہلیز سے ٹھوکر کھائیں درد کے کمرے میں جا گرتے ہیں نت نئے دھوکے میں مصروف رکھا خود کو ہم سمجھدار بھی، پاگل بھی بنے ہیں اکثر ہم ہنسے بھی ہیں، اداسی بھی بہت جھیلی ہے عشق کے شک میں بتائے ہیں بہت دن ہم نے دل کو جھانسے بھی دیے روز بہت رونق کے روح کو رنگ دیے ہیں لیکن وہ جو آنسو کبھی آباد ہوا تھا نا نصیبوں کی کسی بستی میں کھینچ لاتا رہا واپس اسی کمرے میں ہمیں یہ الگ کمرہ کسی کھوہ کی مانند بہت گہرا ہے اک عجب رنگ کی خاموشی ہے دیواروں پر کو نوں کھدروں میں بہت شور ہیں لاچاری کے فرش پر ہجر کا غالیچہ بچھا رہتا ہے چھت پہ جالے سے لگے ہیں کسی بیماری کے صحن کے دکھ کی طرف ۔۔۔۔۔۔ مین دروازے کے ڈر کی جانب ۔۔۔۔ درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے ہم جہاں آتے ہیں کمرہ بھی چلا آتا ہے ہم چلے جائیں تو کمرہ بھی چلا جاتا ہے ۔۔۔۔ اس کے باسی کے لئے خود فریبی سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا ہے

Mere chahny walo

میرے چاہنے والو چشمِ نم کو روتے ہو؟ میری وحشتیں تم پر کیوں گراں گزرتی ہیں؟ میرے رنج و غم پر تم کیوں اداس رہتے ہو؟ کیوں سوال کرتے ہو؟ میرے چاہنے والو ! کبھی ویران آنکھوں کا خواب بن کے دیکھا ہے؟ یاد میں ڈھلے ہو تم؟ کسی کے خشک ہونٹوں کی کانپتی دعاؤں میں صد ہا برس رہ کر خاک میں ملے ہو تم؟ سائبان کھویا ہے؟ دھوپ میں جلے ہو تم؟ زندگی کا حاصل جو پیار تم نے پایا تھا نفرتوں میں بدلا ہے؟ دوستی کے پردے میں ملنے والے دشمن کے، ہاتھ سے لٹے ہو تم؟ میرے چاہنے والو ! اُن ویران آنکھوں کا خواب تو بنو پہلے یاد میں ڈھلو پہلے مہربان آنکھوں کی نفرتوں کو سہہ جاؤ، خاک میں ملو پہلے پھر تمہیں خبر ہوگی میری وحشتیں کتنی تلخ اک حقیقت ہیں چشمِ تر کے آنسو بھی گردشِ زمانہ کے درد کی امانت ہیں درد تو سہو پہلے پھر تمہیں خبر ہوگی میرے چاہنے والو

Chote chote qadam utatty

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی میری جانب آتی ہے تو اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے "پاپا" اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر جب وہ مجھ کو چُھوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی اس کے لمس میں جاگ اٹھی ہے اے مالک، اے ارض و سما کو چُٹکی میں بھر لینے والے تیرے سب معمور خزانے میری ایک طلب میرا سب کچھ مجھ سے لے لے لیکن جب تک اس آکاش پہ تارے جلتے بُجھتے ہیں میرے گھر میں روشن رکھنایہ معصوم ہنسی اے دنیا کے رب کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس سچ سچ مجھ سے کہہ تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے کیا کوئی ہے؟ بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

Saf basta te arab ke jawanan tagh band

صف بستہ تھے عرب کے جوانان تيغ بند تھی منتظر حنا کی عروس زمين شام اک نوجوان صورت سيماب مضطرب آ کر ہوا امير عساکر سے ہم کلام اے بوعبيدہ رخصت پيکار دے مجھے لبريز ہو گيا مرے صبر و سکوں کو جام بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول ميں اک دم کی زندگی بھی محبت ميں ہے حرام جاتا ہوں ميں حضور رسالت پناہ ميں لے جائوں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پيام يہ ذوق و شوق ديکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ جس کی نگاہ تھی صفت تيغ بے نيام بولا امير فوج کہ ''وہ نوجواں ہے تو پيروں پہ تيرے عشق کا واجب ہے احترام

Taaq par jazdan main lepti duain reh gaye

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اس کو وسعت کھا گئی ہر طرف ارض و سما میں انتہائیں رہ گئیں شب گئے پھرتی ہے غازہ مَل کے بوڑھی خواہشیں شہر کی سڑکوں پہ اب تو بیسوائیں رہ گئیں کھولتا ہوں یاد کا در اسم ِاعظم پھونک کر اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں زندگی چلتی ہے کیسے ناز نخرے سے نسیم اس طوائف میں وہی پہلی ادائیں رہ گئی