Skip to main content

bazar ki gharmi ko haddat nhi ghardana

بازار کی گرمی کو حّدت نہیں گردانا
قیمت کو کسی شے کی قیمت نہیں گردانا


اعصاب سوالوں میں مصروف ہی ایسے تھے
فرصت کو کبھی ہم نے فرصت نہیں گردانا


نیلام کیا ہم نے حسّاس طبیعت کو
جب دل نے تمنا کو حسرت نہیں گردانا


دکھ ہجر کے کھولے ہیں بستر کی اذیّت نے
تکیے کو سرہانے کی خدمت نہیں گردانا


تاخیر زدہ رکھّا معلوم کے خطروں کو
اِدراک کی سُرعت کو سُرعت نہیں گردانا


مُٹھّی میں رکھا ہم نے اُڑتے ہوئے بالوں کو
وحشت کو کبھی ہم نے وحشت نہیں گردانا


بدنام ہوئی میری شمشیر کی عریانی
دشمن نے مروّت کو مہلت نہیں گردانا


تبدیل کیا گویا ترتیبِ عناصر کو
جانے کو ترے ہم نے ہجرت نہیں گردانا


کچھ اُس کے تقرّب کی تسکین ہی ایسی تھی
جذبات کی شدّت کو شدّت نہیں گردانا


جب زہر دیا اُس نے ہم جاں سے نہیں گزرے
حیرانی کے عالم کو حیرت نہیں گردانا


کچھ دل ہی ملوث تھا خدشوں کی ترقی میں
اک رنج کو بھی غم کی صورت نہیں گردانا


حیرت کے تناظر میں دھوکا دیا آنکھوں نے
سُرخی کو ترے لب کی سُرخی نہیں گردانا


بیٹھا تھا سرِ محفل ہوکر میں دھواں لیکن
یاروں نے مجھے حسبِ حالت نہیں گردانا


میں نے تو اسے محسن سو رُوپ دیے پھر بھی
اُس نے مری صورت کو صورت نہیں گردانا

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay