Skip to main content

Kuch bhi to nahi jaisa

کچھ بھی تو نہیں ویسا

کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
جتنا تجھے چاہا تھا
سوچا تھا تیرے لب پر
کچھ حرف دعاؤں کے
کچھ پھول وفاؤں کے
مہکیں گئے میری خاطر
کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
محسوس یہ ہوتا ہے
دکھ جھیلے تھے جو اب تک
بے نام مسافت میں
لکھنے کی محبت میں
پڑھنے کی ضرورت میں

بے سود ریاضت تھی
بے فیض عبادت تھی
جو خواب بھی تھے دیکھے
ان جاگتی آنکھوں نے

سب خام خیالی تھی
پھر بھی تجھے پانے کی
دل کے کسی گوشے میں
خواہش تو بچا لی تھی

لیکن تجھے پا کر بھی
اور خود کو گوا کر بھی

اس حبس کے موسم کی کھڑکی سے ہوا آئی
نا پھول سے خوشبو کی کوئی بھی سدا آئی

اب نیند ہے آنکھوں میں
نا دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی
نا لفط میرے نکلے
نا حرف و معانی کی دانش میرے کام آئی
ندیدہ رفاقت میں
جتنی بھی اذیت تھی
سب میرے ہی نام آئی
کچھ بھی تو نہیں ویسا
جیسا تجھے سوچا تھا
جیسا تجھے چاہا تھا



Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay