Skip to main content

Wo shakh mehtab kat chuki hai buht dinon se

وہ شاخِ مہتاب کٹ چکی ہے
بہت دِنوں سے
وہ شاخِ مہتاب کٹ چکی ہے
کہ جس پہ تم نے گرفتِ وعدہ کی ریشمی شال کے
ستارے سجا دئیے تھے
بہت دنوں سے۔۔۔
وہ گردِ احساس چھٹ چکی ہے
کہ جس کے ذرّوں پہ تُم نے
پلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لُٹا دئیے تھے!
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے
لب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہ
طویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہے
اور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نے
پہاڑ راتوں کو
میری اندھی اجاڑ آنکھوں میں
ریزہ ریزہ بسا دیا ہے
کہ جیسے میں نے
فگار دِل کا ہُنر اثاثہ
کہیں چھپا کر بھُلا دیا ہے!
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
میرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھو
(مجھے کبھی سرخرو نہ دیکھو)
نہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدو!
نہ میرے مقتل کی خاک دیکھو
اور اب تو یوں ہے کہ
اپنی آنکھوں کے خواب
اپنے دریدہ دامن کے چاک دیکھو!
کہ گردِ ا حساس چھٹ چکی ہے
کہ شاخ ِ مہتاب کٹ چکی ہے

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay