Skip to main content

Green card


میری عمر پچیس برس تھی جب میں امریکہ آیا تھا۔یہاں آئے ہوئے پندرہ برس ہوگئے ہیں۔ اچھے وہ دن تھے جب قانونی ویزہ نہ ہونے کے باوجود جاب مل جاتی تھی۔گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج کاعام رواج تھا۔ امریکی عورتیں ڈالروں کی لالچ میں معینہ مدت تک طلاق سے منحرف ہع جاتیں ،نوبت جھگڑے تک پہنچتی تو گرین کارڈ منسوخ کروانے کاکہہ کر بلیک میل کرتیں ۔بچے پیدا کرتیں،شوہر کی کمائی پر عیش کرتیں اور اس کی گردن کا طوق بن جاتیں۔ اس قسم کے واقعات نے مجھے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ ویسے بھی جعلی شادی سے اللہ کا کوف لاحق تھا۔ضمیر والا انسان بڑا خوار ہوتا ہے۔جمعہکی نماز کے لیے مسجد چلا جاتا۔
ایک روز امام مسجد سےجس کا تعلق مصر سے تھا،اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انھوں نے کسی امریکی مسلماں عورت سے حقیقی شادی کے مسائل درپیش ہیں،اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فام قوم کی اکثریت ہے۔انھوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا،جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر ، ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور اسلامی سکول میں جاب کرنے لگی ہے اگر تم اسے سہارا دے دو اللہ بھی راضی ہوگا اور تمہاری رہائش قانونی بھی ہوجائے گی۔میں نے اس خاتون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی امام صاحب نے کہا مغرب کی نماز کے بعد آجانا میں اس سے تمہاری ملاقات کروا دوں گا ۔تمام رات سوچتا رہا کہ اگر سیاہ فام عورت سے شادی کرلی تو خاندان والے ذلیل کردیں گے کہ تمہیں امریکہ میں کوئی گوری نہیں ملی تھی ۔اگر کالی ہی کرنی تھی تو پاکستان میں کیا کمی تھی جیسے جملے کانوں میں گونجنے لگے۔خالہ کی لڑکی کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار کردیا تھا۔اب کوئی جینے نہیں دے گا۔نفس نے پریشان اور امریکی قانون نے سولی پر لٹکا دیا۔
دوسرے روزبعداز مغرب امام صاحب مسجد سے متصل باورچی خانہ میں لے گئے جہاں وہ عورت میز پر بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔اس نے سیاہ برقع جسے عرف عام میں عباء کہتے ہیں اور نقاب پہن رکھا تھا۔ امام صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ سسٹر صفیہ ہیں۔سلام کے بعداس نے نقاب کشائی کی تو میرا دل دھڑام سے سینے سے باہر آنے کو تھا اگر میں کرسی نہ تھام لیتا ۔دبلی پتلی ،نہایت سیاہ اور خوب صورت کہنابھی درست نہ ہوگا ۔اللہ کی تخلیق تھی لہذا کوئی بری بات بھی منہ سے نہیں نکال سکتا تھا چند منٹ کی سلام دعا کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آگیا۔
ہم پاکستانی مردوں کو رنگت کا احساس کمتری کیا کم ہے کہ صورت بھی بھلی نہ ملے ۔خالہ کی لڑکی حور لگنے لگی ۔اللہ نے مجھے اچھے قدوقامت اور صورت سے نواز رکھا تھا۔دل اور دماغ کی جنگ میں آخر جیت دماغ کی ہوئی ۔سوچا گھر والوں سے خفیہ شادی کرلوں، گریں کارڈ حاصل کرتے ہی طلاق دے دوں گا۔ان دنوں گرین کارڈ ایک سال کے دوران مل جاتا تھا۔امام صاھب سے ہاں کردی اور یوں دو ہفتہ بعد ہمارا نکاح کرادیا گیا۔میں صفیہ کو لے کر اپنے فلیٹ میں آگیا۔دل پر جبر کرکے شب روز بیتنے لگے ،صفیہ میری سرد مہری کا اندازہ لگا چکی تھی مگر اس نے کبھی ھرف شکایت نہ کہا۔ہم دونوں اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے شام کولوٹتے ۔
وہ امریکی طرز کا کھانا بناتی ،میرے سامنے میز پر سجاتی ،گھر کے تمام کام کرتی ۔اس کے ہونٹوں کی جنبش سے ذکر الہی ٰ کی مہک آتی رہتی ۔کوئی فضول بات یا بحث نہ کرتی ۔میرے اکھڑے لہجہ پر خاموش رہتی ۔نماز ،پردہ ،قرآن ،میری خدمت ،خاموشی ،صبر و شکر ان سب کودیکھ کر میرا دل گھبرا جاتا۔صورت کے علاوہ کوئی برائی ہو تو میں اس کو تنگ کر سکوں جو کل کو طلاق کا سبب بن سکے ،مگر کچھ ایسی بات ہاتھ نہ لگی ۔مجھے اس سے محبت نہ ہوسکی ہاں البتہ خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ایک نیک سیرت عورت کو دھوکا دیا ہے،شادی کے چار ماہ بعد میری جاب ختم ہوگئ۔نئی جاب کے لیے کوشش شروع کردی اور اس میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران صفیہ اکیلی کمانے والی تھی،مجھ بیروزگار کو گھر بٹھا کر کھلاتی تھی،محنت کرتی اور مجھے بھی حوصلہ دیتی ۔ایک میں تھا کہ شرمندگی سے اسے کسی دوست کے ہاں دعوت پر لے جانے سے کتراتا تھا۔
انہی دنوں ایک قریبی دوست کا بیوی سے جھگڑا چلتا رہا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی خوبصورت تھی مگر مغرور اور بد زبان ،مہمان کے سامنے شوہر کوذلیل کر دیتی ۔اکے بدولت دوست کوگرین کارڈ ملا تھا۔نخروں کا یہ عالم کہ مہمانوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہتی یہ جانتے ہیں میں کس قسم کے ماحول سے آئی ہوں؟ یعنی اپنے مائیکہ کی امارت کا رعب ڈالتی ۔وہ غریب جی حضوری میں گھر بچاتا تھا۔ دعست کو سمجھانے گیا تو بولا یار۔۔گھر عورت بناتی اور بچاتی ہے ،جس گھر کی بنیاد لالچ پر ہو اسے لاکھ سہارا دو،دیواریں گر جاتی ہیں۔گرین کارڈ جہنم بن گیا ہے میرے لیے ۔میرے سسرال والوں کو ڈاکٹر داماد چاہیے تھا ۔یہ لوگ بھی پاکستان شفٹ ہوئےہیں اور میں بھی ۔ فرق اتنا ہے ان کے ہاں ڈالر بولتے ہیں اور میں متوسط گھر سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پاکستان جانا پسند نہیں کرتی اور کبھی چلے جائیں تو گاڑی ہی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ میرے بھائی کے پاس موٹرسائکل ہے اور مجھے ٹیکسی پر ہر جگہ جانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہوں یا امریکہ اس عورت نے مجھے ذلیل کردیا ہے۔ڈاکٹر کی بیگم تو بن گئی ہے مگر میری بیوی نہیں بن سکی۔یار۔۔ہم دونوں نے گرین کارڈ کے لالچ میں شادی کی ہے مگر تم خوش نصیب ہو جسے نیک عورت ملی ہے۔اسلام اس کی پسند ہے جب کہ ہمیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔جمال اور مال نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔تم کمال کی قدر کرو،اسی میں جمال ہے۔بھابی کی قدر کرو اور مجھے بھی معاف کر دو جس نے تیری شادی کا مزاق اڑایا تھا۔دوست کی حالت زار نے میرے دل شمع روشن ضمیر کو جھنجوڑا اور گھر جاتے ہی میں نے پہلی بار مسکرا کر صفیہ کی طرف دیکھا۔اس نے حیرت سے امریکی انداز میں کہا۔۔۔۔۔کیا جاب مل گئی ہے؟نہیں تم مل گئی ہو۔
اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا ۔اس کی پیدائش اور گرین کارڈ ملنے کے بعد والدین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔اب گرین کارڈ ملنے کی صورت میں پاکستان آسکتا ہوں مگر نہیں ہم تینوں ۔والدین کو وقتی دکھ ہوا مگر پوتے کا سن کر خون نے جوش مارا اور ہماری آمد کے منتظررہنے لگے،جاب بھی مل چکی تھی۔ایک ماہ کی چھٹی پر وطن گئے۔ صفیہ نے حسب عادت برقع اوڑھ رکھا تھا ۔ لاہور سے گاوں جانے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں ۔گھر پہنچ کر صفیہ کے ساتھ وہی سلوک ہو جس کا مجھے یقین تھا۔اسے پنجابی نہیں آتی تھی مگر چہروں کی زبان کون نہیں جانتا۔وہ صبر کرتی رہی لیکن ایک لفظ شکایت کانہ کہا۔والد نے میرے ولیمہ اور پوتے کے عقیقہ کی خواہش پوری کی ۔ماں اور بھابی کی نسبت باپ اور بھائی نے صفیہ کوقبول کیا۔اور اس کی سیرت کوسراہا۔ماں بھی خاموش تھی مگر بھابی نے سب کے سامنے کہہ دیا تیری بیوی کو برقع اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔کون اس کی طرف دیکھے گا؟ نقاب تو حسن چھپانے کے لیے اوڑھتے ہیں۔
اس جملہ کے دو روز بعد ہم لاہور ہوائی اڈے پر تھے ۔میں اپنی باکمال بیوی کو مزید جہنم میں نہیں رکھ سکتا تھا۔پاکستان میں اکثریت کو جمال و مال کی ہوس ہے ۔لڑکی کارشتہ لینے جاتے ہیں تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ،نہ حسن اور نہ جہیز ہی لالچ ہوتا ہے،بس لڑکی نیک اور فرماں بردار ہو۔لڑکی کودیکھتے ہی ادارہ بدل جاتا ہےاور پھر کبھی لوٹ کر اس گھر نہیں جاتے ۔لڑکے سے زیادہ لڑکے کے گھر والوں کوحسن ومال کالالچ ہوتا۔صفیہ نے اپنی سیرت سے میرا دل موہ لیا مگر میرے گھر والوں کوقائل نہ کر سکی ۔بھابی جیسی بد زبان کو اس گھر میں مقام حاصل ہے ۔مگر صفیہ اپنی صورت کی وجہ سے وہاں ایک ماہ بھی خوشی سے نہ رہ سکی ۔گرین کارڈ کالالچ جہنم بھی ہے اور جنت بھی ۔میرے دوست کے لیے جہنم ثابت ہوئی اور میرے لیے جنت کوپانے کے لیے قربانی تو دینا بچالیے ۔میں نے سیرت کو صورت پر ترجیح دیتے ہوئے اپنادین ودنیا بچالیے۔آج میرے تین بچے ہیں ماں کے ہمراہ اسلامی سکول جاتے ہیں۔بیٹیاں اپنی ماں کی صورت پر ہیں۔میں دعاکرتاہوں کہ اے اللہ ۔۔۔۔میری بیٹیوں کومجھ جیسالالچ شوہر مت دیناجس کے نکاح کی بنیاد گریں کارڈ ہے نہ کہ اللہ کا خوف

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay