Skip to main content

Oont



ایک عقل مند آدمی کسی جنگل میں پھر رہا تھا ۔اس نے دو آدمیوں کو دیکھا جو یہاں وہاں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔اس آدمی نے اُن سے پوچھا ”کیا تمہارا اونٹ گم ہو گیا ہے ؟“ایک آدمی نے جواب دیا ”ہاں بھائی !ہمارا اونٹ گم ہوگیا ہے۔ہم بہت دیر سے اسے ڈھونڈ رہے ہیں مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے ۔کیا تمہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہے ؟“اس آدمی نے پوچھا ۔”کیا تمہارے اونٹ کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئی تھی ؟“دونوں آدمی فوراً بولے ۔”ہاں ،ہاں !“آدمی نے پوچھا ”کیا وہ بائیں پاؤں سے لنگڑا ہے ؟“آدمی بولے ”ہاں وہ لنگڑا ہے۔“آدمی نے پھر سے سوال کیا ”کیا اس کا کوئی دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے ؟“آدمیوں نے کہا ”ہاں ....اس کا ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے ۔“اس آدمی نے آخر میں پوچھا ”کیا اس پر ایک طرف شہد اور دوسری طرف گیہوں لدے ہوئے ہیں ؟“دونوں آدمیوں نے جواب دیا ”ہاں !بالکل ٹھیک ۔وہی ہمارا اونٹ ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ تم نے اسے دیکھا ہے۔اب بتاو ¿ کہ وہ کہاں ہے ؟“
عقل مند آدمی نے جواب دیا ”میں نے کوئی اونٹ نہیں دیکھا ۔“اس کا یہ جواب سن کر وہ دونوں آدمی اس سے لڑنے لگے ۔”کم بخت چور ....تم نے ضرور ہمارا اونٹ دیکھا ہے ورنہ تمہیں ان ساری نشانیوں کا کیسے پتہ چلا۔ بتاؤ وہ کہاں ہے ؟“وہ آدمی قسم کھا کر کہنے لگا ”بھائیو! میں نے واقعی تمہارا اونٹ نہیں دیکھا ۔“اونٹ والے یہ سن کر یقین نہ کر پائے اور اس آدمی کو پکڑ کر کوتوال کے پاس لے گئے۔ کوتوال نے پورا واقعہ سنا اور پھر اس آدمی سے پوچھا ”اگر تم نے اونٹ دیکھا نہیں تو تمہیں اس کے متعلق اتنی باتیں کیسے معلوم ہوئیں ؟“عقل مند آدمی نے جواب دیا ”جناب !ریت میں اونٹ کے پاؤں کے نشان تھے،جن میں سے ایک نشان بہت ہلکا تھا ،اس لئے میں سمجھ گیا کہ وہ لنگڑاتا ہے۔چونکہ اونٹ نے صرف ایک طرف کی گھاس کھائی ہوئی تھی اس لئے مجھے پتہ چل گیا کہ اس کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئی ہے۔گھاس بیچ میں سے جگہ جگہ چھوٹی ہوئی تھی،اس سے مجھے اونٹ کے ٹوٹے ہوئے دانت کا پتہ چل گیا۔ اس راستے میں کچھ دور تک گیہوں گرے ہوئے تھے اور ایک طرف مکھیاں بھی اکٹھی ہو رہی تھیں،جس سے مجھے معلوم ہوا کہ اونٹ پر ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف شہدلدا ہوا ہے ۔“کوتوال اس شخص کی عقل مندی سے بہت خوش ہوا اور اسے عزت سے رہا کردیا ۔اونٹ والوں نے بھی اس سے معافی مانگی اور چلے گئے۔سچ ہے کہ انسان عقل مند ہو تو بہت سی باتوں کا بغیر دیکھے پتہ چلا سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Talkhiyan By Sahir Ludhianvi

lateefay