Skip to main content

Posts

Showing posts from 2013

Intekhab

امامہ گردن موڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔ "مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤ گے"۔ وہ اِس بات پر ہنسا۔ "مجھ پر یقین تھا ۔ ۔ ۔ کیوں؟ میں تو ایک بُرا لڑکا ہوں۔" "مجھے تم پر یقین نہیں تھا ۔ ۔ ۔اللہ پر یقین تھا۔" سالار کے ماتھے پر کچھ بل پڑ گئے۔ "میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے، یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ عمیرہ احمد کے ناول پیر ِکامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اقتباس

Larkion ka badla

لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔ کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔   میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔ اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا،   وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔   میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "شیطانیاں" سے اقتباس

Mere Humdam mere dost

بہت سے دکھ ہماری قسمت میں لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں ملنے ہوتے ہیں۔ بعض سچائیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ چاہے ہمیں جتنی بھی ناگوار لگیں مگر ہمیں انہیں قبول کرنا پڑنا ہے۔ انسان ہر وقت خود پر ترس کھاتا رہے اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ دکھ اس پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر اس کی زندگی میں خوشیاں آتی بھی ہیں تو وہ انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ فرحت اشتیاق کے ناول " میرے ہمدم میرے دوست" سے اقتباس

Duayain

ہماری کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو اگر قبول ہوجائیں تو ہمیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن ہم خدا سے شکوہ کرتے ہیں کے ہماری دعا قبول نہیں کی. بلکہ آپ یہ دعا کریں کہ اللہٰ"ہمیں وہ عطا کر جس میں ہماری بھلائی ہو" ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا ہمیں پھولوں سے بھرا ٹوکرا عطا کرنا چاھتے ہیں اور ہم اک پھول کی ضد لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اقتباس زاویہ سوم

Bhool

ایک شخص نے امام سے عرض کی کہ میں نے کچھ روپے ایک جگہ چھپا کر رکھ دیئے تھے، اب وہ جگہ مجھے یاد نہیں آتی میں کیا کروں؟ امام نے کہا کے یہ کوئی فقہ کا مسلہ تو ہے نہیں جو تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو. جب اس شخص نے زیادہ اسرار کیا تو کہا کے آج تمام رات تم نماز پرہو. اس نے رات کو نماز پڑھنا شروع ہی کیا تھا کے اسے یاد آ گیا کے اسنے روپے کہاں رکھے تھے.صبح کو وہ ڈورا ہوا آیا اور امام کو تمام واقعہ سنایا. امام نے فرمایا ہاں شیطان کیسے برداشت کرتا کے تم ساری رات نماز پڑھتے رہو، پھر بھی تمہیں چاہیے تھا کے ساری رات نماز پڑھتے رہتے. [ تاریخ کے دریچوں سے اقتباس: تصنیف حضرت مفتی رفیع عثمانی ]

Aghrcha hum ja rahe hain mehfil se nala o dil faghar ban kar

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر بہار کی بدنصیب راتیں بُلا رہی ہیں چلے بھی آؤ کسی ستارے کا رُوپ لے کر، کسی کے دل کا قرار بن کر تلاشِ منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورتِ اعتبار بن کر غرورِ مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے کسی کی آنکھوں کا نُور ہو کر، کسی کے دل کا قرار بن کر دیارِ پیرِ مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر خُدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر

Baaz ghasht

ایک لڑکا اپنے باپ کے ہمراہ پہاڑوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر پڑا۔ اُسے چوٹ لگی تو بے ساختہ اُس کے حلق سے چیخ نکل گئی! ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ اُس لڑکے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسے پہاڑوں کے درمیان کسی جگہ یہی آواز دوبارہ سنائی دی ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘ تجسس سے وہ چیخ پڑا ’’تم کون ہو؟ اُسے جواب میں وہی آواز سنائی دی ’’تم کون ہو؟‘‘ اس جواب پر اُسے غصہ آگیا اور وہ چیختے ہوئے بولا، ’’بزدل!‘‘ اُسے جواب ملا ’’بزدل!‘‘ تب لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اُس کا باپ مسکرا دیا اور بولا ’’میرے بیٹے! اب دھیان سے سنو!‘‘ اور پھر باپ نے پہاڑوں کی سمت دیکھتے ہوئے صدا لگائی ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ آواز نے جواب دیا ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘ وہ شخص دوبارہ چیخ کر بولا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ آواز نے جواب دیا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘ لڑکا حیران رہ گیا، لیکن اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تب اُس کے باپ نے اُسے سمجھایا ’’لوگ اِسے’’بازگشت‘‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ زندگی ہے۔ یہ تمھیں ہ

Chewanti aur insan

کہتے ھیں کہ کسی نے ایک چیونٹی سے پوچھا کہ تمہاری خوراک کتنی ھے..؟ چیونٹی نے جواب دیا کہ سال بھر میں گندم کا ایک دانہ اسکی خوراک ھے.. اس بندے نے تجرباتی طور پر اس چیونٹی کو ایک شیشی میں بند کردیا اور اسکے ساتھ ھی ایک دانہ گندم بھی شیشی میں ڈال دیا.. جب ایک سال گزرنے کے بعد اس نے شیشی کا معائنہ کیا تو کیا دیکھتا ھے کہ چیونٹی نے آدھے سے بھی کم دانہ کھایا ھے جس پر اس بندے نے چیونٹی سے کہا.. " تم تو کہتی تھیں کہ تمہاری خوراک ایک دانہ گندم ھے مگر تم نے تو بہت کم کھایا.. اسکی کیا وجہ ھے..؟ چیونٹی نے جواب دیا.. " اے انسان ! جب تک میں اللہ کی زمین پر آزاد پھرا کرتی تھی تب مجھے اپنے رزق کے بارے میں کوئی خوف لاحق نہیں تھا.. اس لیئے میں خوب پیٹ بھر کر کھاتی اور کبھی بھوکے پیٹ نہیں سویا کرتی.. مگر جب سے میرا رزق اور آزادی تمہارے ھاتھ میں آگئی تو میں نے سوچا کہ یہ تو انسان ھے جو اپنے ھم جنسوں کا رزق بھی چھین لیتا ھے ' کیا خبر کہ وہ اگلے سال میری خوراک کا بندوبست بھی نہ کرے.. بس اسی خوف کی وجہ سے میں نے اپنی بھوک کم کردی اور باقی گندم کو برے وقت کے لیئے بچا لیا..

Hazrat dawood tayi(R.U)

ایک دن حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ کی خادمہ نے عرض کیا: آپ کے لیے گوشت کا اچھا سا سالن پکاؤں؟ حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں!جی تو میرا بھی چاہتا ھے ۔ اچھا ٹھیک ھے پکا کر لے آؤ؟ خادمہ نے کوشش کرکے بہت اچھا سالن تیار کیا جب وہ گوشت حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ کے سامنے لاگیا تو حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا دیکھنا! فلاں شخص کے یتیم بچے کہاں ہیں؟ خادمہ بولی یہیں ہیں۔ یہ سن کر حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ فوراً نے فرمایا: بس پھر یہ گوشت انہھیں دے آؤ خادمہ نے حیران ہو کر کہا: آپ نے اتنی مدت سے گوشت نہیں چکھا ، آپ بھی تو اس میں سے کھالیں اس پر حضرت داؤد طائی رحمہ اللہ نے فرمایا اگر میں یہ گوشت کھالیتا ہوں تو کچھ دیر بعد یہ نجاست بن کر کوڑے میں چلاجائے گا ۔ لیکن اگر اسے یتیم کھائیں گے تو یہ کھانا عرش الٰہی پر جائے گا (یعنی اجر و ثواب ملے گا) اور سارا سالن اٹھا کر یتیم بچوں کو دے دیا اور خود وہی خشک روٹی کے ٹکرے کھا لیے

Daik to lain ke jaan se utta hy

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے! نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میر بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے میر تقی میر

Ghalat fehmian

ﺟﺐ ﻧﺎﺧُﻦ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺐ ﻧﺎﺧُﻦ ﮨﯽ ﮐﺎﭨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ

Makhloot taleem

’’یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے ۔میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسرجمیل واسطی مرحوم تھے، جو پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر حیدرآباد آئے تھے۔ ہماری کلاس میں تقریباً بیس سٹوڈنٹ تھے۔ان میں چھ کے قریب طالبات تھیں۔ اس زمانہ میں طالبات انگریزی ادب فیشن کے طور پر پڑھا کرتی تھیں۔ ہماری کلاس نے پکنک کاایک پروگرام بنایا، لیکن اس پراختلاف ہوگیا کہ لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پکنک منانے جائیں یا الگ الگ؟ یہ معاملہ پروفیسر جمیل واسطی کے علم میں آیاتو انہوں نے رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ "مگریہاں تومخلوط تعلیم ہے۔ واسطی صاحب!" ایک لڑکی نے اٹھ کراحتجاج بھری آواز میں کہا۔ "میں نے کب کہا کہ میں مخلوط تعلیم کاحامی ہوں؟" واسطی مرحوم بولے۔ "سر! یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے۔" وہ بولی۔ واسطی صاحب نے گھوم کرلڑکی کی طرف دیکھا جو ایک معروف، متمول اور فیشن ایبل خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔پھرانہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا: غلام اکبر! تمہاری جیب میں ایک چونّی ہوگی؟ اس عجیب وغر

Dilchasp ishtehar

ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﺑﮍﺍ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺸﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﮐﺮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔۔۔ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻗﺪ، ﮐﯿﻨﺴﺮ، ﮨﭙﺎﭨﺎﺋﭩﺲ، ﮔﺮﺗﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ، ﺑﮯ ﺍﻭﻻﺩﯼ، ﻣﻮﭨﺎﭘﮯ، ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺩ، ﺍﻣﺮﺍﺽِ ﻣﺨﺼﻮﺻﮧ، ﮐﺎﻟﯽ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ، ﮔﺮﺩﻥ ﺗﻮﮌ ﺑﺨﺎﺭ، ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ، ﭘﭩﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﻨﭽﺎﺅ ،ﺩﻝ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ، ﮨﺮ ﻣﺮﺽ ﮐﺎ ﺷﺎﻓﯽ ﻋﻼﺝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔۔۔ ﻓﺮﺍﺯ ﺩﻭﺍﺧﺎﻧﮧ ۔۔۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺩﻭﺍﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﯿﮩﻮﺩﮦ ﺳﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺳﮯ ﺣﮑﯿﻢ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺩﺭﺳﺖ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯾﻀﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺵ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ’’ﺑﮍﺍ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﻓﺮﯼ۔۔۔‘‘ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻻﺋﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ، ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﺭﯾﮕﻮﻟﺮ ﺣﮑﯿﻢ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻧﻌﺎﻣﯽ ﮐﻮﭘﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ 70 ﺳﯽ ﺳﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ‘‘ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ

Maa ka qaraz

ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ. ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ. ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ - ﺳﺎﺱ ﮨﮯ. ﺑﺎﺕ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ - "ﻣﺎﮞ .. ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ. ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺳﻮﺩ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ. ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ. ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺳﮑﮭﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ !!! "ﺑﯿﭩﺎ _ ﺣﺴﺎﺏ ﺫﺭﺍ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﮯ، ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ. ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﮨﯿﮯ". ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ"-ﻣﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﻱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ". ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺳﺐ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ. ﺑﯿﭩﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﮯ ﻟﯽ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯽ .. ﻣﺎﮞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭨﮫ

Jhote main paisy

••▄•• جوتے میں پیسے ••▄••▀ کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا ۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے ۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کی لگتی تھی طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا ، "ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھردیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔ ...پروفیسر نے جواب دیا ، "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے ، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو ۔ ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے " ۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے ۔ غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگ

Larkian

لڑکیاں شیشہ ھوتی ھیں، اور محبت انکی کمزوری _____ان سے نہیں کھیلتے ، یہ قتل عمد ھے میرے نزدیک شیشے کو معمولی سی بھی بھاپ چھو جائے تو دھند لا جاتا ھے۔ جو ہمارا اور آپ کا ''صرف'' ھوتا ھے وہ انکا ''بس" ھوتا ھے۔

Mujay tum yaad ate ho

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں کسی مصروفیت کے موڑ پر تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں “مجھے تم یاد آتے ہو“ کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر کسی بستی کی بارونق سڑک پر اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ مری چپ کے کنویں میں آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں اور کنارے سے کوئی بولے تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخو رنجش کھٹکتی ہے تمہاری بےسبب دوری سلگتی ہے یا جب مری آنکھوں کے صحرا میں تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ مقدر کے ستا روں پر زمانوں کے اشاروں پر ادا سی کے کناروں پر کبھی ویران شہروں میں کبھی سنسان رستوں پر کبھی حیران آنکھوں میں کبھی بے جان لمحوں پر مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔ کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔

Mohabbat

ایک شخص سے محبت ، انسان کو کتنا مجبور کر دیتی ہے ۔ میں نے زندگی میں کسی کی پرواہ ہی نہیں کی اور اب اس شخص کی پرواہ کی ہے تو مجھے احساس ہوا ہے کہ محبت کرنے کے بعد بندے کو کتنا جھکنا پڑتا ہے صرف اس خوف سے کہ کہیں دوسرا آپ کو چھوڑ نہ دے ۔ ۔ شہرِ ذات - عمیرہ احمد

Bewaqoof

اس کلاس میں اگر کوئی بےوقوف ہے تو فوراً کھڑا ہو جائے۔" نئی ٹیچر نے کلاس میں داخل ہو کر کہا۔ کافی دیرتک توکوئی کھڑا نہیں ہوا پھرتھوڑی دیر بعد ایک لڑکا جھجکتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ " تم اپنے آپ کو بے وقوف کیوں سمجھتے ہو؟ " ٹیچر نے پوچھا۔ "بات دراصل یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو بے وقوف بلکل نہیں سمجھتا! وہ تو میں صرف اس لیے کھڑا ہو گیا کہ آپ کلاس میں اکیلی کھڑی اچھی نہیں لگ رہی تھیں!" لڑکے نے جواب دیا۔  

Maqbool Hajj

دو حجاج کرام کی آپس میں گفتگو، تھوڑی سی طویل ہے، لیکن پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا وقت ضایع نہیں ہوا۔ حاجی سعید صاحب فریضہ حج ادا کرنے کے بعد وطن واپسی کے لیے ایئرپورٹ پر بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔ ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک اور حاجی صاحب ان کے پاس آ بیٹھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا، نام وغیرہ پوچھا اور انتظار کی کوفت ختم کرنے کے لیے دوسرے حاجی صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ: برادر سعید! میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔ بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر بھی خوب صدقات دیئے اور خیراتیں کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔ سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا اور مسنون طریقے سے حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: حجا

Double cross

ڈبل کراس ایک کتا جنگل میں راستہ بھٹک گیا، وہ بھی راستہ تلاش کرنے کی سوچ ھی رھا تھا کہ شیر کے دھاڑنے کی آواز سنائی دی۔ اُس نے سوچا لو بھئی آج تو موت آئی ھی آئی۔ اور دوسرے ھی لمحے دور سے اُسے شیر اپنی طرف آتا نظر آیا۔ کتا گھبراھٹ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ اچانک اُس کی نظر ایک مرے ھوئے جانور کے دھانچے پر پڑی۔ اُس نے جلدی سے اُس میں سے ایک ھڈی نکالی اور شیر کی طرف پشت کر کے بیٹھ گیا، اسی اثنا میں شیر اُس کے انتہائی قریب آگیا، تبھی وہ شیر کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ھوئے بناوٹی غرور میں بولا۔۔۔"یار! آج شیر کا شکار کر کے بہت مزہ آیا، لیکن ابھی بھوک ختم نہیں ھوئی، اگر ایک شیر اور کھانے کو مل جائے تو مزہ دوبالا ھو جائے۔۔۔!!" شیر نے جب یہ سنا اور دیکھا تو دُم دبا کے بھاگ گیا۔ یہ سارا تماشہ ایک بندر اُوپر درخت پر بیٹھ کے دیکھ رھا تھا، اُس کے دل میں آیا کہ یہ اچھا موقع شیر کو سب سچ سچ بتانے کا اور کتے کو سبق سکھانے کا، کتے نے جب اُسے جاتے دیکھا تو بہت روکا لیکن وہ نہیں رکا۔۔! بندر شیر کے پاس گیا اور بولا۔۔۔"عالم پناہ! اُس کتے نے آپ کو بیوقوف بنایا اور آپ

Zuban ki pelaye hoye museebatain

زبان کی پھیلائی ہوئی مصیبتیں ------------------------------ ---- اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصبیتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے۔ زیادہ بولنے والا مجبور ہوتا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ملا کر بولے۔   آواز انسان کو دوسروں سے منسلک کرتی ہے اور خاموشی انسان کا دوسروں سے تعارف کرواتی ہے۔ زندگی سر بستہ راز ہے اور راز ہمیشہ خاموش ہوتا ہے اور اگر خاموش نہ ہو تو راز نہیں رہتا۔ خلیل جبران

Urdu ki abyari

اردو کی آبیاری, قائداعظم نے فرمایا برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں نے اردو کی آبیاری کی ہے، ایک ایسی زبان جو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسی زبان جو اسلامی تہذیب و تمدن کی بہترین جہات اور روایات کی کسی بھی صوبائی زبان سے زیادہ عکاسی کرتی ہے۔ یہ دوسرے مسلم ممالک کی زبانوں سے نزدیک تر بھی ہے۔ ( ڈھاکہ یونیورسٹی،24مارچ، 1948ئ)

Apna ullo kahee nahi geya

اپنا الّو کہیں نہیں گیا  ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا کہ ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سوداگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روز نامچے میں لکھا، "بادشاہ الّو ہے۔" کس نے بادشاہ کو اسکی یہ حرکت بتا دی اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شخص کہنے لگا، "حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔" بادشاہ نے کہا، "اور اگر وہ واپس آ گیا تو؟" اس شخص نے فوراً جواب دیا، "تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس شخص کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا

Hamare dil main kaheen dard hay nahi hay na?

ڈاکٹر افتخار مغل صاحب کی آخری غزل جس کے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ، کمنٹس کا انتظار رہے گا  ہمارے دل میں کہیں درد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ ہمارا چہرہ بھلا زرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ سُنا ہے آدمی مر سکتا ہے بچھڑتے ہوئے   ہمارا ہاتھ چھوؤ ، سرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ سُنا ہے ہجر میں چہروں پہ دھول اڑتی ہے   ہمارے رخ پہ کہیں گرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ کوئی دلوں کے معالج ، کوئی محمد بخش تمام شہر میں کوئی مرد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟ وہی ہے درد کا درماں بھی افتخار مغل کہیں قریب وہ بے درد ہے ؟ نہیں ہے نا ؟

Oont

ایک عقل مند آدمی کسی جنگل میں پھر رہا تھا ۔اس نے دو آدمیوں کو دیکھا جو یہاں وہاں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔اس آدمی نے اُن سے پوچھا ”کیا تمہارا اونٹ گم ہو گیا ہے ؟“ایک آدمی نے جواب دیا ”ہاں بھائی !ہمارا اونٹ گم ہوگیا ہے۔ہم بہت دیر سے اسے ڈھونڈ رہے ہیں مگر نہ جانے وہ کہاں چلا گیا ہے ۔کیا تمہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہے ؟“اس آدمی نے پوچھا ۔”کیا تمہارے اونٹ کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئی تھی ؟“دونوں آدمی فوراً بولے ۔”ہاں ،ہاں !“آدمی نے پوچھا ”کیا وہ بائیں پاؤں سے لنگڑا ہے ؟“آدمی بولے ”ہاں وہ لنگڑا ہے۔“آدمی نے پھر سے سوال کیا ”کیا اس کا کوئی دانت بھی ٹوٹا ہوا ہے ؟“آدمیوں نے کہا ”ہاں ....اس کا ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے ۔“اس آدمی نے آخر میں پوچھا ”کیا اس پر ایک طرف شہد اور دوسری طرف گیہوں لدے ہوئے ہیں ؟“دونوں آدمیوں نے جواب دیا ”ہاں !بالکل ٹھیک ۔وہی ہمارا اونٹ ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ تم نے اسے دیکھا ہے۔اب بتاو ¿ کہ وہ کہاں ہے ؟“ عقل مند آدمی نے جواب دیا ”میں نے کوئی اونٹ نہیں دیکھا ۔“اس کا یہ جواب سن کر وہ دونوں آدمی اس سے لڑنے لگے ۔”کم بخت چور ....تم نے ضرور ہمارا اونٹ  دیکھا ہے ورنہ تمہیں ان ساری