Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2013

janta hun ke mera dil mere pehlo main nahi

جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں ایک تم ہو کہ تمہارے ہیں پرائے دل بھی ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی قابو میں نہیں حیف جس کے لیے پہلو میں نہ رکھا دل کو کیا قیامت ہے کہ فانی وہی پہلو میں نہیں (فانی بدایونی)

hath chotega bhi to rishte nahi chorra karte

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے لگ کے ساحل سے جوبہتا ہے اُسے بہنے دو ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے جمع ہم ہوتے ہیں ، تقیسم بھی ہوجاتے ہیں ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے جاکے کہسار سے سرمارو کہ آواز تو ہو خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے ! --

Muhabbaton ka hesab ta na adawaton ka shumar tha

محبتوں کا حساب تھا نا عداوتوں کا شمار تھا کبھی اس کی ذات عذاب تھی ، کبھی روح کا وہ قرار تھا میری پیاس اتنی ہی بڑھ گئی کے سراب جتنے ملے مجھے ہوا دھوکہ جس پے گلاب کا وہ سلگتا ، جلتا شرار تھا اسے میں نے مُڑ کر صدا نا دی کے پلٹ گیا تھا وہ راہ سے میں خزاں ہوا تو پتہ چلا ، میری ذات کا وہ نکھار تھا تُو بھی دور ہے ، میں بھی دور ہوں ، کیوں الگ ہوئے یہ راستے تیری چاہتوں کا گریز تھا یا میری انا کا حصار تھا وہ اگر کسی کو ملے کہیں تو کوئی بتا دے اسے ذرا میرے فن شعر کی بے خودی ، تیرے عشق ہی کا خمار تھا

Quran majeed

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻨﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﻣﮕﺮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺭﮨﺎ. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻗﺮﺍﻧﯽ ﺳﻮﺭﺗﯿﮟ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﻼ، ﻧﮧ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ، ﻧﮧ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﺳﻮۂ ﺣﺴﻨۂ ﮐﻮ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﻗﮯ ﺳﮯ ﺟﻮﮌﻭﮞ ﻣﮕﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﺎﮐﺎﻣﯽ ﮨﻮﺋﯽ. ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ(ﻣﺴﻠﻢ) ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﻣﻠﯽ. ﺍﮔﺮ ﻓﺮﻗﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺫﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ، ﺍﯾﮏ ﮔﻨﺎﮦ، ﺍﯾﮏ ﺗﻨﺒﯿﮧ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ. ﺍﻥ ﺳﺐ ﻭﺍﺿﺢ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺁﺝ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﯿﮟ. ﮨﻢ ﻓﺮﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺮﮮ ﻃﺮﺡ ﺑﭧ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﺻﻞ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮨﯽ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ. ﺍﻧﺼﺎﺭ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﻢ ﺳﮯ.

Ab k mitti ki ibarat main leki jayge

اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئی مبہم تحریر اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا نَم اگر ہو گی کوئی چیز تو میری آنکھیں میری پلکوں کے دریچے مری بنجر آنکھیں میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ دھُوپ کا حرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھر آنکھیں

husan waly wo kaam karte hain

حُسن والے وُہ کام کرتے ہیں لفظ جھک کر سلام کرتے ہیں عُمر بھر یہ غلام نہ سمجھا! آپ کیسے غلام کرتے ہیں؟ خوش نصیبی گُلوں پہ ختم ہُوئی اُن کی زُلفوں میں شام کرتے ہیں ’’با اَدب ، با ملاحظہ‘‘ گھر میں اَب! کبوتر قیام کرتے ہیں فتویٰ تعبیر پر ہے لاگو حضور! خواب کو کیوں حرام کرتے ہیں؟ جام تو توڑ بیٹھے منبر پر اَب سَبُو کو اِمام کرتے ہیں قصۂ عشق آگے بڑھ نہ سکا وُہ میرا ’’اِحترام‘‘ کرتے ہیں ’’چار خانے‘‘ بنائے بیٹھا ہے؟ دِل! ترا اِنتظام کرتے ہیں! سب شروع کرتے ہیں بنامِ خدا ہم خدا پر تمام کرتے ہیں بن ملے جن سے قیس عشق ہُوا! یہ غزل اُن کے نام کرتے ہیں

junoon main shoq ki gehrayion se darta raha

جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا میں اپنی ذات کی سچّائیوں سے ڈرتا رہا محبّتوں سے شناسا ہُوا میں جس دن سے پھر اُس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا وہ چاہتا تھا کہ تنہا مِلوں، تو بات کرے ! میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سنّاٹے اِسی لئے تو میں شہنائیوں سے ڈرتا رہا میں اپنے باپ کا یوسف تھا، اِس لئے مُحسن سُکوں سے سو نہ سکا، بھائیوں سے ڈرتا رہا

ab tari zarorat bhi buht kam hay mari jaan

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں، اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں، اب تذکرہء خندہء گل بار ہے جی پر، جاں وقفِ غمِ گریہء شبنم ہے مری جاں، رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلفِ‌سیہ تاب، تصویر پریشانیِ عالم ہے مری جاں، یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت، یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں، ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط، مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں، یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے، ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں، اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست، اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں۔ حبیب جالب

ay anoky sakhi

اے انوکھے سخی! اے مرے کبریا!! کوئی رستہ دکھا خود پہ کُھل جاؤں میں مجھ پہ افشا ہو تُو' اے مرے کبریا!! کبریا اب مجھے لوحِ ارض و سما کے سبھی نا تراشیدہ پوشیدہ حرفوں میں لپٹے ہوئے اسم پڑھنا سکھا اے انوکھے سخی! اے مرے کبریا! میں مسافر ترا

Ansoo

‎"آنسو قابل رحم تو بنا سکتے ہیں مگر قابل اثر نہیں۔ زندگی کے معاملات رونے دھونے سے حل نہیں ہوا کرتے۔ اگر انسان رونے بیٹھ جائے تو ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اس طرح ہمت اور طاقت کمزور پڑ جاتی یے۔ آگے چلنا یے تو رو کر عمر کیوں گزاری جائے۔" (اقتباس: شازیہ چوہدری کے ناول "شہر دل کے دروازے" سے)

wo jo ajaty te ankhon main sitary le kar

وہ جو آ جاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر جانے کس دیس گئے خواب ہمارےلے کر چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے پیڑ گرتا ہے تو آ جاتے ہیں آرے لے کر وہ جو آسودہ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لےکر ایسا لگتا ہے کے ہر موسم ہجراں میں بہار ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمہارے لے کر شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں فراز' اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

Soch dasht hijar ki weranion main ghum rahi

سوچ، دشت ہجر کی ویرانیوں میں گم رہی زندگی اپنی جنوں سامانیوں میں گم رہی رات سورج کے تعاقب میں رہی گرم سفر دل کی وحشت چاند کی تابانیوں میں گم رہی آسماں کے طاق میں جلتی ہوئی شام شفق چشم نم کی آئنہ سامانیوں میں گم رہی عکس آئینہ سے کیا کھلتا طلسم آگہی یہ وہ حیرانی تھی جو حیرانیوں میں گم رہی تیرے جلووں کے ستارے ہوں کہ بارش ہجر کی دل کی یہ بستی تو بس طغیانیوں میں گم رہی

interview

انٹرویو لینے والا:ایک طیارے پر 500 اینٹیں ہیں۔ان میں سے ایک باہر پھینک دی جائے تو باقی کتنی بچیں گی. امیدوار:بہت آسان سوال ہے،499 اینٹیں بچیں گی. انٹرویو لینے والا:ایک ہاتھی کو فریج میں ڈالنے کے تین مراحل کیا ہیں امیدوار:فریج کھولیں،ہاتھی کو اندر رکھیں اور فریج بند کر دیں انٹرویو لینے والا:ایک ہرن کو فریج میں ڈالنے کے چار مراحل کیا ہیں امیدوار:فریج کھولیں،ہاتھی کو باہر نکالیں،ہرن کو اندر رکھیں اور فریج بند کر دیں انٹرویو لینے والا:شیر کی سالگرہ تھی،تمام جانور آئے سوائے ایک کے۔کیوں امیدوار:کیوں کہ ہرن فریج میں ہے انٹرویو لینے والا:ایک بوڑھی عورت مگرمچھوں سے بھری ہوئی دلدل کو کیسے عبور کرے گی امیدوار:بہت آرام سے۔کیونکہ تمام مگرمچھ شیر کی سالگرہ میں شریک ہیں انٹرویو لینے والا:آخری سوال:آخر میں بوڑھی عورت پھر بھی مر جاتی ہے۔کیوں امیدوار:آں ۔۔میرا خیال ہے کہ وہ ڈوب جاتی ہے انٹرویو لینے والا:نہیں!اسے جہاز سے پھینکی جانے والی اینٹ لگی تھی. اب تم جا سکتے ہو

50 rupae

سڑک کے کنارے کھمبے پر چپکے کاغذ پر لکھا ہوا تھا: میرے پچاس روپے گم ہو گئے ہیں، جس کو ملیں وہ میرے گھر واقع فلاں گلی پہنچا دے، میں ایک بہت ہی غریب اور بوڑھی عورت ہوں، میرا کوئی کمانے والا نہیں، روٹی خریدنے کیلئے بھی محتاج رہتی ہوں۔ ایک آدمی کو یہ پچاس روپے ملے تو وہ کاغذ پر لکھے ہوئے پتے پر پہنچانے چلا گیا۔ جیب سے پچاس روپے نکال کر بُڑھیا کو دیئے تو وہ پیسے لیتے ہوئے رو پڑی۔ کہنے لگی: بیٹے آج تم بارہویں آدمی ہو جسے میرے پچاس روپے ملے ہیں اور وہ مجھے پہنچانے چلا آیا ہے۔ آدمی پیسے دیکر مسکراتے ہوئے جانے لگا تو بُڑھیا نے اُسے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا: بیٹے، جاتے ہوئے وہ کاغذ جہاں لگا ہوا ہے اُسے پھاڑتے جانا کیونکہ ناں تو میں پڑھی لکھی ہوں اور ناں ہی میں نے وہ کاغذ اُدھر چپکایا ہے۔ ( وفي السماء رزقكم وما توعدون - آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے)

yun akaly main usy ahd e wafa yaad aya

یوں اکیلے میں اسے عہدِوفا یاد آئے جیسے بندے کو مصیبت میں خدا یاد آئے جیسے بھٹکے ہوئے پنچھی کو نشیمن اپنا جیسے اپنوں کے بچھڑنے پہ دعا یادآئے جیسے ڈھلتی ہوئی شاموں کو سویرا کوئی جیسے پنجرے میں پرندے کو فضا یاد آئے جیسے بوڑھے کو خیالات میں بچپن اپنا جیسے بچے کو شرارت پہ سزا یاد آئے جیسے اُجڑی ہوئی بستی کو زمانہ اپنا جیسے طوفان کے ٹھہرنے پہ دیا یاد آئے

Titliaan

تتلیاں سبھی چاہتیں سبھی راحتیں اسی ہمسفر کے دم سے تھیں وہ گیا تو میری آنکھ میں اِک ایسی رُت بسا گیا جو روشنی تھی کھو گئی جو تتلیاں تھیں مر گئیں بس اِک شبِ سیاہ ہے جو میری ہمسفر ہے اب غموں کی ایسی بھیٹر ہے تھی اِک خوشی نہیں رہی شامِ فراق