Skip to main content

Posts

Showing posts from April, 2012

Ek baar lekain....

اک بـــار لکـــھیں ہـــم اس پـــر کچھ نہیں لکھیـــں گے!! دل کـــا تـــمہارے جـــو صفـــحہ ہے... وہ آج بــھی بــلکل ســـادہ ہے!! اس پر بھی تـــو لکھــا تھا ہــم نے... اک نــــــام کـــبھی... پــــــــیغام کـــبھی ... اشــــــعار کـــبھی... ســــــرکار کـــبھی... وہ صـــفحہ تـــم نے دھو ڈالا.. وہ صـــفحہ بـلکل ســـادہ ہے.. اب کاغــذ کے اس صـفحے کو.. کیـــوں آگے لاکے رکـھتی ہــو.! کیوں نـــام پــیام اشعار لکھیں ہــم لوگ تــو جو سرکار لکھیں اک بــــــار لکـــھیں

Us waqt to yun lagta hay ab kuch bhi nahi hay

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا آنکھوں کے دریچوں میں کسی حسن کی جھلکن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا ممکن ہے کوئی وہم ہو ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شائید اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا اک بیر نہ اک مہر نہ اک ربط نہ رشتہ تیرا کوئی اپنا نہ پرایا کوئی میرا مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت بڑی ہے لیکن میرے دل یہ تو فقط ایک گھڑی ہے ھمت کرو جینے کو ابھی عمر پڑی ہے

Roshni ke baab bantai jayange

روشنی کے باب بنتے جائیں گے زخم جب مہتاب بنتے جائیں گے چشمِ نم میں ڈوبنا چاہیں اگر سینکڑوں گرداب بنتے جائیں گے عشق جن کی زندگی میں ڈھل گیا لوگ وہ نایاب بنتے جائیں گے دوست بن کر جو ملیں گے راہ میں درد کے اسباب بنتے جائیںگے ہار بانہوں کا گلے میں ڈال کر ہم تری محراب بنتے جائیں گے تابِ نظارہ جو پیدا ہوگئی اور بھی بیتاب بنتے جائیں گے تیرے عکس ِناز سے اے دلربا آئینے پر آب بنتے جائیں گے جس قدر ہوں گی جہاں میں نفرتیں خون کے سیلاب بنتے جائیں گے اشک ان کی یاد میں لکھیں گے جو عشق کے آداب بنتے جائیں گے

Tere harf e lub ka talasam ta mere aab o tab main reh gaya..

تیرے حرف و لب کا طلسم تھا، میری آب و تاب میں رہ گیا وہ کسی گلاب کا جسم تھا، جو میری کتاب میں رہ گیا میری بات بات میں روشنی، میرے حرف حرف میں دلکشی تو میرا شریکِ وصال ِجاں، میری ہر کتاب میں رہ گیا کوئی پھول کھل کے بکھر گیا، کوئی بات بن کے بگڑ گئی نہ سوال کوئی لبوں پہ ہے، نہ گلہ جواب میں رہ گیا دل ِخوش گماں تیری خیر ہو، تو ہے پھر یقیں کی صلیب پر تجھے پھر کسی سے شکایتیں، تو اسی عذاب میں رہ گیا تجھے کیا ملا دل ِمبتلا، نہ کوئی دعا نہ کہیں وفا مگر ایک عرصۂِ رائیگاں، جو تیرے حساب میں رہ گیا وہ جو میرا عہدِ جمال تھا، وہ جو میرا شہر ِخیال تھا کہ اب اس کا ذکر ِکمال بھی، کہیں حرف و خواب میں رہ گیا

Mere chara ghar tujay khabar...

میرے چارہ گر میرے درد کی تجھے کیا خبر تو میرے سفر کا شریک ہے نہیں ہم سفر؟ میرے چارہ گر،میری چارہ گر میرے ہاتھ سے تیرے ہاتھ تک وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ ....کئی موسموں میں بدل گیا اسے ناپتے اسے کاٹتے ...میرا سارا وقت نکل گیا نہیں جس پہ کوئی بھی نقشِ پا میرے سامنے ہے !!!....وہ رہ گز میرے چارہ گر،میرے چارہ گر !میرے درد کی تجھے کیا خبر یہ جو ریگ دشت فراق ہے میرے راستے میں بچھی ہوئی ...کسی موڑ پہ یہ رُکے کہیں یہ جو رات ہے میرے چار سو ...مگر اس کی کوئی سحر نہیں ...نہ چھاوںہے نہ ثمر کوئی میں نے چھان دیکھا شجر شجر میرے چارہ گر،میرے چارہ گر !!!میرے درد کی تجھے کیا خبر

Bahar rut main ujar rasty taka karogy to ro parogy

بہار رُت میں اُجاڑ رستے تکا کرو گے تو رو پڑو گے کسی سے ملنے کو جب بھی سجا کرو گے تو رو پڑو گے تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے کہ زندگی میں جو پھر کسی سے دغا کرو گے تو رو پڑو گے میں جانتا ہوں میری محبت اُجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسے کہ چاند راتوں میں اب کسی سے ملا کرو گے تو رو پڑو گے

Gham e hijran main apni ye bhi halat kon karta hay

غمِ ہجراں میں اپنی یہ بھی حالت کون کرتا ہے بھلا اِس عہد میں ایسی محبت کون کرتا ہے جو دل میں ہو وہی اپنی زباں سے بھی بیاں کرنا سوا میرے یہاں ایسی جسارت کون کرتا ہے عَلم سچ کا کھل گیا یہ راز مجھ پر بھی منافق عہد میں سچ کی حمایت کون کرتا ہے ہر اک کو دوسرے کی چاک دامانی نظر آئے گریباں دیکھ لے اپنا،یہ زحمت کون کرتا ہے اُدھر اُن کےستم اتنے کہ جن کی حد نہیں کوئی اِدھر بھی ظرف والے ہیں شکایت کون کرتا ہے زمانہ مجھ سے لوگوں کے لئے مقتل ہوالالی پرایا ہو کہ اپنا ہو،رعایت کون کرتا ہے

Jah ki khwahish e be faiz pe marne walay

جاہ کی خواہشِ بے فیض پر مرنے والے کسی انسان کی عزت نہیں کرنے والے وہی اب شہر کی نظروں میں شناور ٹھہرے لبِ دریا جو کھڑے تھے کئی ڈرنے والے کس قدر خواب میں ابھی شعر بنانے ہیں ہمیں کتنے خاکوں میں ابھی رنگ ہیں بھرنے والے وقت پر زور نہیں عمر چلی جاتی ہے سینکڑوں کام پڑے ہیں ابھی کرنے والے بھول ہوگی تو اُسے دل سے کریں گے تسلیم ہم نہیں دوش کسی اور پر دھرنے والے دیکھ لے آنکھ اٹھا کرہمیں اے سیلِ ہوس نہیں اس شہر کے سب لوگ بکھرنے والے پیار بٹنے سے کبھی ختم نہیں ہوگا امجد دل کے دریا تو نہیں ہوتے کبھی اترنے والے امجد اسلام مجد

Mohabbaton main hawas ke aseer hum bhi nahi

محبتوں میں ہوس کی اسیر ہم بھی نہیں غلط نہ جان کہ اتنے حقیر ہم بھی نہیں نہیں ہو تم بھی قیامت کی تند و تیز ہوا!! کسی کے نقشِ قدم کی لکیر ہم بھی نہیں ہماری ڈوبتی نبضوں سے زندگی تو نہ مانگ سخی تو ہیں مگراتنے امیر ہم بھی نہیں کرم کی بھیک نہ دے اپنا تخت بخت سنبھال ضرورتوں کا خدا تُو،فقیر ہم بھی نہیں شبِ سیاہ کے "مہمان دار" ٹھہرے ہیں وَگرنہ تیرگیوں کے سفیر ہم بھی نہیں ہمیں بُجھا دے ہماری انا کو قتل نہ کر کہ بے ضرر ہی سہی،بے ضمیر ہم بھی نہیں محسن نقوی

Mehfilain rut gaye jazbat ne dam tor diya

محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا ہر مسرّت غم دیروز کا عنوان بنی وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا اَن گِنت محفلیں محروم ِچراغاں ہیں ابھی کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا جن سے افسانہ ہستی میں تسلسل تھا کبھی ان محبّت کی روایات نے دم توڑ دیا جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گی جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

Naya ek rishta paida keaue kry hum

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم وفا،اخلاص،قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم سنادیں عصمتِ مریم کا قصہ؟ پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم زلیخا سے عزیزاں بات یہ ہے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے تو ساری عمر ایفاکیوں کریں ہم اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری فقط کمرے میں ٹہلا کیوں کریں ہم جو اک نسلِ فرومایہ کو پہنچے وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر دنیا کی پرواکیوں کریں ہم ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم چبالیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ تمہیں راتیں مہیا کیوں کریں ہم پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم جون ایلیا

Humay koi ghum nahi ta gham e ashaqi se pehly

ہمیں کوئی غم نہیں تھا، غم ِعاشقی سے پہلے نہ تھی دشمنی کسی سے، تیری دوستی سے پہلے ہے یہ میری بد نصیبی، تیرا کیا قصور اس میں تیرے غم نے مار ڈالا، مجھے زندگی سے پہلے میرا پیار جل رہا ہے، اے چاند آج چھپ جا کبھی پیار تھا ہمیں بھی، تیری چاندنی سے پہلے میں کبھی نہ مسکراتا، جو مجھے یہ علم ہوتا کے ہزار غم ملیں گے، مجھے ایک خوشی سے پہلے یہ عجیب امتحان ہے، کہ تم ہی کو بھولنا ہے ملے کب تھے اس طرح ہم، تمہیں بے دلی سے پہلے

Hum apne khwaab keaue bachain...

ہم اپنے خواب کیوں بیچیں فقیرانہ روش رکھتے تھے لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے کہ اپنے خواب بیچیں ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے لیکن روکشِ بازار کب تھے ہمارے ہاتھ خالی تھے مگر ایسا نہیں پھر بھی کہ ہم اپنی دریدہ دامنی الفاظ کے جگنو لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے خواب لے لو خواب لوگو اتنے کم پندار ہم کب تھے ہم اپنے خواب کیوں بیچیں کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں کہ جن کی عاشقی میں اور ہوا خواہی میں ہر ترغیب کی شمعیں بجھا دی تھیں چلو ہم بے‌نوا محرومِ سقف و بام و در ٹھہرے پر اپنے آسماں کی داستانیں اور زمیں کے انجم و مہتاب کیوں بیچیں خریدارو! تم اپنے کاغذی انبار لائے ہو ہوس کی منڈیوں سے درہم و دینار لائے ہو تم ایسے دام تو ہر بار لائے ہو مگر تم پر ہم اپنے حرف کے طاؤس اپنے خون کے سرخاب کیوں بیچیں ہمارے خواب بے ‌وقعت سہی تعبیر سے عاری سہی پر دل ‌زدوں کے خواب ہی تو ہیں نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں کہ اپنی خواہشوں کے یوسفوں پر تہمتیں دھرتے نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر ہیں تعبیر جن کی اس کے زندانی بیان کرتے نہ یہ ان ...

Khabi yaad awo to estarha

کبھی یاد آؤ تو اس طرح میرے آس پاس کنول کھلیں کبھی گنگناؤ تو اس طرح میرا درد پھر سے غزل بنے کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح میری دھڑکنیں بھی لرز اُٹھیں کبھی بھول جاؤ تو اس طرح !نہ سسک سکیں نہ بلک سکیں۔۔۔

Kab tak tu onchi awaz main bolyga...

کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا اپنے آنسو اپنی آنکھ میں رہنے دے ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا آؤ شہر کی روشنیاں ہی دیکھ آئیں کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا لاکھ میرے ہونٹوں پر چُپ کی موہریں ہوں میرے اندر کا فنکار تو بولے گا دیکھ وہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اپنا سارا زہر تجھ ہی میں گھولے گا اے سوداگر چاہت کی جاگیروں کے کس میزان میں تو اس جنس کو تولے گا محسن اس کی نرم طبیعت کہتی ہے پل دو پل وہ میرے ساتھ بھی ہولے گا

Tak gya hay musalsal safar udassi ka

تھک گیا ہے مسلسل سفر اداسی کا اور اب بھی ہے میرے شانے پہ سر اداسی کا میرے وجود کے خلوت کدے میں کوئی تو تھا جو رکھ گیا ہے دیا طاق پر اداسی کا میں تجھ سے کیسے کہوں یار ِمہرباں میرے کہ تو علاج نہیں ہے میری ہر اداسی کا یہ اب جو آگ کا دریا میرے وجود میں ہے یہی تو پہلے پہل تھا شرر اداسی کا

Kaisy kareghar hain ye

کیسے کاریگر ہیں یہ آس کے درختوں سے !لفظ کاٹتے ہیں اور سیڑھیاں بناتے ہیں !کیسے باہنر ہیں یہ غم کے بیج بوتے ہیں اور دلوںمیںخوشیوں کی کھیتیاں اگاتے ہیں !کیسے چارہ گر ہیں یہ وقت کے سمندر میں !!!کشتیاں بناتے ہیں اور آپ ڈوب جاتے ہیں۔۔۔۔

jis ke liye han jan balub usko nhi malal bhi

جس کے لئے ہیں جاں بلب، اس کو نہیں ملال بھی اے دلِ ناصبور اب، عادتِ ہجر ڈال بھی دامنِ یار تک کہاں عشقِ زبوں کی دسترس حشمتِ حسن دیکھ کر بھول گیا سوال بھی کب سے ہیں لوگ سر بکف، راہ میں مثلِ آہواں اب تو میرے شکار تُو، تیر و کماں سنبھال بھی جس کے بغیر روز و شب سخت بھی تھے محال بھی اس کے بغیر کٹ گئے کس طرح ماہ و سال بھی انجم و مہر و ماہتاب، سرو و صنوبر و گلاب کس سے تجھے مثال دوں، ہو تو کوئی مثال بھی اس کے خرام ناز سے ایسی قیامتیں اُٹھیں اب کے تو مات کھا گئی چرخِ کہن کی چال بھی ہم کو تو عمر کھا گئی خیر ہمیں گلہ نہیں دیکھ تو کیا سے کیا ہوئے یار کےخدوخال بھی اب کے فراز وہ ہوا جس کا نہ تھا گمان تک پہلی سی دوستی تو کیا ختم ہے بول چال بھی

Qasid jo tha bahar ka na motabar hua...

قاصد جو تھا بہار کا نا معتبر ہُوا گلشن میں بندوبست برنگِ دِگر ہُوا خواہش جو شاخِ حرف پہ چٹکی، بِکھر گئی آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام اُس کی گلی میں رات مراہم سفر ہوا آواز کیا کہ شکل بھی پہچانتا نہیں غافل ہمارے حال سے وہ اِس قدر ہوا عُمرِ رواں کے رخت میں ایسا نہیں کوئی جو پَل تُمہاری یاد سے باہر، بسر ہُوا خوشبو تھی جو خیال میں، رزقِ اَلم ہُوئی جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہُوا دل کی گلی میں حدّنظر تک تھی روشنی کرنیں سفیر، چاند ترا نامہ بر ہُوا تارے مِرے وکیل تھے، خوشبو تِری گواہ کل شب عجب معاملہ، پیشِ نظر ہُوا امجد اگر وہ دورِ جنوں جاچُکا، تو پھر لہجے میں کیوں یہ فرق کسی نام پر ہُوا