آنے والی رتوں کے آنچل میں کوئی ساعت سعید کیا ہو گی چاند کے پاس بھی سنانے کو اب کے کوئی نوید کیا ہو گی ۔ ۔ ۔ ؟ گل نہ ہو گا ۔ ۔ ۔ تو جشنِ خوشبو کیا؟ تم نہ ہو گے ۔ ۔ ۔ تو عید کیا ہو گی
مری دہلیز پر بیٹھی ہوئی زانو پہ سر رکھے یہ شب افسوس کرنے آئی ہے کہ میرے گھر پہ آج ہی جو مر گیا ہے دن وہ دن ہمزاد تھا اس کا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آئی ہے کہ میرے گھر میں اس کو دفن کر کے اک دیا دہلیز پر رکھ کر نشانی چھوڑ دے ۔ ۔ ۔ کہ محو ہے یہ قبر اس میں دوسرا آ کر نہیں لیٹے ۔ ۔ ۔ میں شب کو کیسے بتلاوں بہت دن میرے آنگن میں یونہی آدھے ادھورے سے کفن اوڑھے پڑے ہیں کتنے سالوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ جنہیں میں آج تک دفنا نہیں پایا ۔ ۔ ۔ ۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبر چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھـ تو کہو کہیں تو بہـــرخـــدا آج ذکر یار چلے کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئنگے غمگسار چلے جو ہم پہ گذری سو گذری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے حضور یار ہوئے دفتر جنوں کی طلب گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے مقام، فیض، کوئے راہ میں جچا ہی نہیں جو کوی یار سے نکلے تو سوی دار چلے
تشگی نے سراب ہی لکھا خواب دیکھا تو خواب ہی لکھا دوستو! ہم نے اپنا حال اُسے جب بھی لکھا، خراب ہی لکھا نہ لکھا اُس نے کوئی بھی مکتوب پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا
اسے یہ کہنا، مجھے نہ سوچے۔ میں دل گرفتہ ادھورا شاعر، میں الجھی سوچوں، بکھرتی نظروں، بھٹکتی راہوں کا اک مسافر۔ خیال ترچھے، سوال آڑھے، قدم میرے لڑکھڑا چکے ھیں ۔ سوال ایسے ، ازل سے جن پر، ضمیر آدم نے کچھ نہ سوچا۔ جواب ایسے کہ گر کبھی ، خود کو بھی بتاؤں، تو کانپ جاؤں۔ گزرتے لمحوں کی گرد، چہرے پہ، تہ بہ تہ ، جمتی ہی جا رہی ھے۔ نقوش میرے، مٹا رہی ھے، میں اپنا خنجر، خود اپنی ، شہ رگ پہ آزما چکا ھوں۔ میں خود بھی، خود کو، بھلا چکا ھوں ۔ اسے یہ کہنا، مجھے نہ سوچے۔۔!!!!!!!!!!!!!
کبھی کبھی میرے دل میںخیال آتا ہے کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے تیری نظر کی شعاعوںمیںکھو بھی سکتی تھی عجب نہ تھا کہ میں بے گانہ الم ہو کر تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں انہی حسین فسانوں میںمحو ہو رہتا پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں گھنیری زلفوں کے سایہ میںچھپ کے جی لیتا مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیںتیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے اسے کسی کے سھارے کی آرزو بھی نھی زمانے بھر کے دکھوں کا لگا چکا ہوں گلے گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں حیات و موت کے پرہول خارزاروں سے نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کربھ میں جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ساحر لدھیانوی۔۔۔۔
چلے جاتے ہیں آئے دن بیوٹی پالر میں یوں کہ مقصد ہو جواں لگنا کہ مثل حور ہو جانا مگر یہ بات بیگم کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ کہ ممکن ہی نہیں کشمش کا پھر سے انگور ہو جان
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ضرب کلیم کی نظم "امامت" تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب ا سرار کرے ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے دے کے احساس زیاں تیر ا لہو گرما دے فقیر کی سان چڑ ھا کر تجھے تلوار کرے فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہو گا میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ و بُو میں روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہو گا اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہو گا!؟ آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟ میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہو گا کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہو گا کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہو گا وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہو گا راہداری میں ، ہرے لان میں ،پھُولوں کے قریب اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہو گا نام بھُولے سے جو میرا کہیں آیا ہو گا غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہو گا ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہو گا بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بھُولا ہو گا یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہو گا جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہو گا کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہو گی اُسے اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہو گا چلتے چلتے کوئی مانوس ...
میں نے خدا کو غلط سمجھا شاید ہم سب ہی خدا کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں، ہمیں خدا پر صرف اس وقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں مالی طور پر آسودہ کر دے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم اسے طاقتور ہی نہیں سمجھتے۔ ہم نماز کے دوارن اللہ اکبر کہتے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور نماز ختم کرتے ہی ہم روپے کو بڑا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں مجھے ہميشہ ایسا لگتا تھا کہ خدا مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خدا تو ہر ایک سے محبت کرتا ہے اسی لیے تو اس نے مجھے آزمائشوں میں ڈالا اور وہ اپنے انہیں بندوں کو آزمائشں میں ڈالتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے." عمیرہ احمد کے ناول "زندگی گلزار ہے" سے اقتباس
ہمارے رویے بھی عحیب ہیں - رجوع اللہ کی طرف نہیں ہے ، اپنے معاملات اور خواہشات کی طرف زیادہ ہے - حالانکہ اللہ نے ہمیں جو پرچہ زندگی حل کرنے کے لیے دیا ھے اس کو حل کرنے کی ترکیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دے دی گئی ھے لیکن اسی مقام سے میری کوتاہی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم اس ترکیب پر عمل نہیں کرتے- میں آپ سے بھی رائے لوں گا کہ میں اس کوتاھی سے باہر نکلنے کے لیے کیا کروں ؟ میں ڈاکٹر کی دی ھوئی دوائی استعمال کرتے وقت پرچہ ترکیب ضرور دیکھتا ھوں - پرچہ زندگی حل کرتے وقت خدا کے دیئے گئے احکامات یا دی گئی ترکیب کو نظر انداز کر دیتا ھوں " از اشفاق احمد، زاویہ 3 ، عنوان: "ڈبو اور کالو"