Skip to main content

Posts

Showing posts from 2012

main scarf keaue pehnti hun

• میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟ "تم نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا حیا! کہ میں ہر وقت اسکارف کیوں پیہنتی ہوں؟" عائشے سر جھکائے لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ تراشتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ "میں تمہیں بتاؤں‘ میرا بھی دل کرتا ہے کے میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول یا اٹل ی اور اسپین کی لڑکیاں پہن کر آتی ہیں۔ بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پہ چلتی آ رہی ہوتی ہیں تو ایک دنیا ان کو محسور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پہ چلوں تو لوگ محسور و متاثر ہو کر مجھے دیکھیں.... لیکن...." وہ سانس لینے کو رکی‘ حیا بنا پلک جھپکے‘ سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔ "لیکن.... پھر مجھے خیال آتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک دن میں مر جاؤں گی‘ جیسے تمہاری دوست مر گئی تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی‘ جس کے اوپر میں چلتی ہوں۔ پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور زمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور لال آندھی ہر سو چلے گی۔ اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ تم نے کبھ

Hum dasht e janoo ke sodai

.ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہم گردِ سفر، ہم نقشِ قدم۔۔ ہم سوزِطلب، ہم طرزِ فغان--- ہم رنج چمن، ہم فصل خزاں ۔۔۔ ہم حیرت و حسرت و یاس و الم--- ہم دشت جنوں کے سودائی یہ دشتِ جنوں، یہ پاگل پن ۔۔ یہ پیچھا کرتی رسوائی--- یہ رنج و الم، یہ حزن و ملال۔۔۔ ... یہ نالہء شب، یہ سوزِ کمال--- دل میں کہیں بے نام چبھن۔۔ اور حدِ نظر تک تنہائی --- ہم دشتِ جنوں کے سودائی--- اب جان ہماری چُھوٹے بھی۔۔ یہ دشتِ جنوں ہی تھک جائے -- جو روح و بدن کا رشتہ تھا۔۔ کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا -- اب دل کا دھڑکنا رک جائے۔۔ اب سانس کی ڈوری ٹوٹے بھی -- ہم دشتِ جنوں کے سودائی۔۔

manzar ke ird gird bhi aur aar par dund

منظر کے اردگرد بھی اور آرپار دُھند آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بےشمار دُھند کیسے نہ اُس کا سارا سفر رائیگاں رہے جس کاروانِ شوق کی ہے راہگزار دُھند ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہوا کرتی ہے اس میں چھپ کر مرا انتظار دُھند آنکھیں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ دل وہ چمن کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند کمرے میں میرے غم کے سوا اور کچھ نہیں کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار دُھند فردوسِ گوش ٹھہرا ہے مبہم سا کوئی شور نظارگی کا شہر میں ہے اعتبار ، دُھند ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جابجا امجد فضائے جاں میں ہے یوں بےقرار دُھند

usay kehna ye dunya hai

اسے کہنا یہ دنیا ہے ! یہاں ہر موڑ پہ ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں ! جو اندر تک اترتے ہیں ! ابد تک ساتھ رہنے کی ! اکھٹے درد سہنے کی ! ...ہمیشہ بات کرتے ہیں ! اسے کہنا . . ! یہ دنیا ہے ! یہاں ہر شخص مطلب کی ! حدوں تک ساتھ چلتا ہے . . ! جونہی موسم بدلتا ہے ! محبت کے سبھی دعوے ! سبھی قسمیں ! سبھی وعدے ! سبھی رسمیں ! اچانک ٹوٹ جاتے ہیں ! اسے کہنا … . ! یہ دنیا ہے … !

zara se dair ko manzar suhany lagte han

ذرا سی دیر کو منظر سُہانے لگتے ہیں پھر اُس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں میں سوچتا ہوں کہ تو دربدر نہ ہو، ورنہ تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس کھلی فضا میں تجھے گنگنانے لگتے ہیں جو تو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے ہم اپنے آپ سے خود ہی نبھانے لگتے ہیں عجیب کھیل ہے جلتے ہیں اپنی آگ میں ہم پھر اپنی راکھ بھی خود ہی اُڑانے لگتے ہیں یہ آنے والے زمانے مرے سہی، لیکن گذشتہ عمر کے سائے ڈرانے لگتے ہیں نگار خانہء ہستی میں کیسا پائے ثبات کہیں کہیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں

Mujay na socahi

مجھے نہ سوچے۔ میں دل گرفتہ ادھورا شاعر میں الجھی سوچوں بکھرتی نظروں بھٹکتی راہوں کا اک مسافر۔ خیال ترچھے سوال آڑھے قدم میرے لڑکھڑا چکے ھیں ۔ سوال ایسے ازل سے جن پر ضمیر آدم نے کچھ نہ سوچا۔ جواب ایسے کہ گر کبھی خود کو بھی بتاؤں تو کانپ جاؤں۔ گزرتے لمحوں کی گرد چہرے پہ تہ بہ تہ جمتی ہی جا رہی ھے۔ نقوش میرے مٹا رہی ھے میں اپنا خنجر خود اپنی شہ رگ پہ آزما چکا ھوں۔ میں خود بھی خود کو بھلا چکا ھوں ۔ اسے یہ کہنا مجھے نہ سوچے۔۔

khoob hai shoq ka ye pehlo bhi

خُوب ہے شوق کا یہ پہلُو بھی میں بھی برباد ہوگیا، تُو بھی حسن ِمغموم، تمکنت میں تری فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی یہ نہ سوچا تھا زیرِ سایہء زلف کہ بچھڑ جائے گی یہ خوشبُو بھی حسن کہتا تھا، چھیڑنے والے چھیڑنا ہی تُو بس نہیں، چُھو بھی ہائے وہ اس کا موج خیز بدن میں تو پیاسا رہا لبِ جُو بھی یاد آتے ہیں معجزے اپنے اور اُس کے بدن کا جادُو بھی یاسمیں! اُس کی خاص محرمِ راز یاد آیا کرئے گی اب تُو بھی یاد سے اُس کی ہے مرا پرہیز اے صبا اب نہ آئیو تُو بھی ہیں یہی جون ایلیا ،جو کبھی سخت مغرور بھی تھے، بدخُو بھی

Huzoor aye to kya kya sath naimat le ke aye hain

حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں کہا صدیق نے میری صداقت ان کا صدقہ ہے عمر ہیں ان کے شاہد وہ عدالت لے کے آئے ہیں کہا عثمان نے میری سخاوت ان کا صدقہ ہے علی دیں گے شہادت وہ شجاعت لے کے آئے ہیں رہے گا یہ قیامت تک سلامت معجزہ ان کا وہ قرآن میں نور و ہدایت لے کے آئے ہیں خدا نے رحمت للعالمیں خود ان کو فرمایا قسم اللہ کی رحمت ہی رحمت کے کے آئے ہیں قناعت ، حریت ، فکر وعمل ، مہر و وفا ، تقوی وہ انساں کے لیے عظمت ہی عظمت لے کے آئے ہیں حضور آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں اخوت ، علم وحکمت ، آدمیت لے کے آئے ہیں

mujda kaafiat dawami dy

مثردۂ کیفیت دوامی دے مرے خدا! مجھے اعزازِ نا تمامی دے میں تیرے چشمۂ رحمت سے شاد کام تو ہوں کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر میں خود کماؤں جسے، بس وہ نیک نامی دے وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں بلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دے تری زمین یہ تیرے چمن رہیں آباد جو دشتِ دل ہے، اسے بھی تو لالہ فامی دے بڑا سرور سہی تجھ سے ہمکلامی میں بس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دے میں دوستوں کی طرح خاک اڑا نہیں سکتا میں گردِ راہ سہی، مجھ کو نرم گامی دے اگر گروں تو کچھ اس طرح سربلند گروں کہ مارکر، مرا دشمن مجھے سلامی دے

Lauh bhi tu qalam bhi tu tera wujud Al Kitaab

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب Lauh bhi tu qalam bhi tu tera wujud Al Kitaab, Gunbad e Aabgeena rang tery muheet mein habaab! عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوکت نجر وسلیم تیرے جلال کی نمود فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگئے عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب

per wahi muharram per wahi khooon ki bazi

ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﺤﺮﻡ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﺳﺠﺎ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﺮﺑﻼ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﻟﮩﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺜﻞ ﺣﺴﯿﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ﯾﺰﯾﺪ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﻨﺪ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺴﻠﻢ ﭘﮧ ﮨﯿﮟ ﺣﯿﻮﺍﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻟﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻋﺼﻤﺘﯿﮟ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﮐﭧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻏﻨﭽﮯ ﺑﺮﺳﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﻤﺮ ﺗﯿﺮ، ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺳﻤﯿﭧ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻋﻀﺎﺀﻟﺨﺖ ﺟﮕﺮ ﺍﻭﺭﺳﺴﮏ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺯﯾﻨﺐ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﮐﮭﻨﭻ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮑﯿﻨﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺣﺮﻣﺖ ﻟﭧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﮐﺌﯽ ﭼﻤﻦ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﮨﻮ ﺳﻮﺗﮯ ﺣﺴﻨﺎﺕ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ

Suno ahle palasteen

سنو اہل فلسطین سنو ۔۔۔ إإ تم جلتے رہے آگ و بارود میں مگر ھم کچھ نہیں کر پائے سسکتی رہیں بہنیں سرہانے لاشوں کے ... مگر ھم کچھ نہیں کر پائے ڈرے سہمے وہ معصوم چہرے تڑپتے رہے آنکھوں کے وہ تارے مگر ھم کچھ نہیں کر پائے فریاد کرتی سسکتی رہیں مائیں لاشے اٹھائے جگر گوشوں کے مگر ھم کچھ نہیں کر پائے بھگوتے رہے اپنے آنسووٴں سے دامن مگر ھم کچھ نہیں کر پائے تم اگر نہیں سوئے راتوں کو تو یقین جانو ۔۔۔ کہ کاٹی ھم نے بھی راتیں سسک سسک کر اسریٰ بخدا سو ھم بھی نہیں پائے مگر ھم کچھ نہیں کر پائے ......!!!

abhi kya kahain abhi kya sunay

ابھی کیا کہیں ابھی کیا سنیں؟ کہ سر ِ فصیل ِ سکوت ِ جاں کف ِ روز و شب پہ شرر نما وہ جو حرف حرف چراغ تھا اسے کس ہوا نے بجھا دیا ؟ کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا! . سر ِ شہر ِ عہد ِ وصال ِ دل وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا اسے دست ِ موج ِ فراق نے تہ ِ خاک کب سے ملا دیا ؟ کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا! . ابھی کیا کہیں ۔۔۔ ابھی کیا سنیں؟ یونہی خواہشوں کے فشار میں کبھی بے سبب ۔۔۔ کبھی بے خلل کہاں، کون کس سے بچھڑ گیا ؟ . کسے ، کس نے کیسے بھلا دیا ؟ کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا۔۔

Jis zameen par bhi kula mere laho ka parcham

ﺟﺲ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻼ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﮩﻮ ﮐﺎ ﭘﺮﭼﻢ ﻟﮩﻠﮩﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ____ﺍﺭﺽ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﮐﺎ ﻋَﻠَﻢ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻋﺪﺍ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ____ ﺍﯾﮏ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﻣﯿﺮﮮ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺌﮯ, ﮐﺘﻨﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﻓﯿﺾ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﯿﺾ

Ab mere nigah main chupta nahi koye

اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی جیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی یہ شان لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی اے ظرف نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے سرکار کا جلوہ ہے تماشہ نہیں کوئی ہوتا ہے جہاں ذکر محمد کے کرم کا اس بزم میں محروم تمنا نہیں کوئی اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو افلاک پہ تو گنبدِ خضری نہیں کوئی سرکار کی رحمت نے مجھے خوب نوازا یہ سچ ہے کہ خالد سا نکما نہیں کوئی

Mere jan teek kehte ho

میری جان! ٹھیک کہتی ہو ہماری اس محبت کا بھلا کیا فائدہ ہو گا؟ ہمارے درمیاں جو دوریاں ہیں کم نہیں ہوں گی کبھی بارش کے موسم میں ہمشہ ساتھ رہنے کی جو خواہش دل میں جاگی تھی جو سپنے ہم نے دیکھے تھے وہ سپنے ٹوٹ جا ئیں گے میری جان! ٹھیک کہتی ہو مقدر کے لکھے کو ہی اگر تسلیم کرنا ہے تو پھر ایسی محبت کا بھلا کیا فائدہ ہو گا مگر اس کو اگر چاہو تو میری بے بسی کہہ لو ۔۔۔مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔

Biwi ki talash

بیوی کی تلاش" ایک عرب دانا نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ ٦ قسم کی عورتوں سے کبھی شادی نہ کرنا، خواہ وہ حسن و جمال اور مال و دولت میں بے مثال ہی کیوں نہ ہوں. انانہ ، منانہ، حنانہ، حداقہ، براقہ اور شداقہ... انانہ - وہ عورت جو ہر وقت سر پر پٹی باندھے رکھے، کیوں کہ شکوہ و شکایت ہی ہمیشہ اس کا معمول ہو گا. منانہ - وہ عورت جو ہر وقت مرد پر احسان ہی جتاتی رہے کہ میں نے تیرے ساتھ یہ یہ احسان کیا اور تجھ سے تو مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا. حنانہ - وہ عورت جو ہر وقت اپنے سابقہ خاوند کو ہی یاد کرتی رہے اور کہے کہ وہ تو بڑا اچھا تھا مگر تم ویسے نہیں ہو. حداقہ - وہ عورت جو خاوند سے ہر وقت فرمائش ہی کرتی رہے، جو چیز بھی دیکھے اس کی طلبگار ہو جائے. براقہ - وہ عورت جو ہر وقت اپنی چمک دمک میں ہی لگی رہے. شداقہ - وہ عورت جو تیز زبان ہو اور ہر وقت باتیں بنانا ہی اس کا کام ہو

khabi yaad ao to estarha

کبھی یاد آؤ تو اس طرح کہ لہو کی ساری تمازتیں تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں تمہں رنگ رنگ نکھار دیں تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو مژہ کی نوک سے نوچ لیں کبھی یاد آؤ تو اس طرح کہ دل و نظر میں اُتر سکو کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے تو حواس بن کے بکھر سکو کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں کبھی خونِ جگر میں سنور سکو سرِ رہگزر جو ملو کبھی نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو مرا درد پھر سے غزل بنے کبھی گنگناؤ تو اس طرح مرے زخم پھر سے گلاب ہوں کبھی مسکراؤ تو اس طرح مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے سبھی رابطے سبھی ضابطے کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو نہ شکستِ دل کا ستم سہو نہ سنو کسی کا عذابِ جاں نہ کسی سے اپنی خلش کہو یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں کبھی بھول جاؤ تو اس طرح کسی طور جاں سے گزر سکیں کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!! کبھی یاد آؤ تو اس طرح

Badal itny zoor se barsay

بادل برسیں بادل اتنی زور سے برسیں میرے شہر کی بنجر دھرتی گم صم خاک اڑاتے رستے سوکھے چہرے پیلی آنکھیں بوسیدہ مٹیالے چہرے ایسے بھیگیں اپنے کو پہچان نہ پائیں بجلی چمکے بجلی اتنے زور سے چمکے میرے شہر کی سونی گلیاں مدت کے تاریک جھوکے پراسرار کھنڈر ویرانے ماضی کی مدھم تصویریں ایسے چمکیں سینے کا ہر بھید اگل دے دل بھی ڈھڑکے وہ بھی اتنی زور سے ڈھڑکے سوچوں کی مضبوط طنابیں خواہش کی ان دیکھی گرہیں رشتوں کی بوجھل زنجیریں ایک چھناکے سے کھل جائیں سارے رشتے سارے بندھن چاہوں بھی تو یاد نہ آئیں آنکھیں اپنی دید کو ترسیں بادل اتنی زور سے برسیں

Mohabbat rooh main parwarda

محبت روح میں پروردہ مادیت سے بہرہ ور دیار دل کی رونق ہجر یاراں کا آخری آنسو شام تنہائی میں ہم نوا سخن محفل میں تماشائی سونپ دیتے ہیں خود کو محبت کے ہاتھوں میں انتہائے شوق کی خاطر چلو احسان کرتے ہیں دان کرتے ہیں تم کو دربار دل اپنا سو فیصلہ تمہارا ہے چھوڑ جاؤ یا پلٹ آؤ محبت سے محبت تک  

har khwahish nhi hoti takmeel k liye

ہر خواہش نہیں ہوتی تکمیل کے لئے ہر خواب نہں سجتا تعبیر کے لئے سہانا نہں ہوتا محبت کا ہر سفر ہر خیال نہں ہوتا تصویر کے لئے محبت ایک لمحے کی گرفت ہے اور بس ہر لمحہ نہیں ہوتا تسخیر کے لئے محبت روح کا تقدس ہے فنا ہونا سحر مگر کچھ اور ہے یہ لوگوں کی تفسیر کے لئے

manzil milte milte chot gaye

منزل ملتے ملتے چھوٹ گئے مسافر رلتے رہےتنہا تنہا خواب بنتے بنتے آنکھ تھک گئی ہاتھوں سے جگنوں اڑتے گئے پھول یوں ہی مرجھاتے گئے ویران ویران راہیں بوجھل ہیں قدم چلتے چلتے پاؤں زخمی زخمی اک پرندہ پنجرے میں بے جان آنکھوں میں اداسی لب سیے ہر اک کو تکتا ہے آس سے اب تو کوئی آئے مہرباں جو اس بند قفل کو اس طرح کھولے پرواز کرے شاھین آسمان کے وسعتوں میں مل جائے منزل اسے دنیا کی خوبصورت نگری میں

sadion ka safar bhi ghuzar jata hai

لمحہ لمحہ صدیوں کا سفر بھی گزر جاتا ہے افق کے پار دن بھی اتر جاتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ درد دل میں رہے جائے نہ یہ جدائیوں کا زمانہ نہ گزرے تنہائیوں کا زمانہ نہ گزرے انتظار کے لمحات قیامت ہی سہی بچھڑنا وقت کی ضرورت ہی سہی ہاں یہ سب تو اک کھیل ہے زندگی اک لمحہ کی جیل ہے پھر اک لمحہ کو رونا کیسا پانا کیسا پا کر کھونا کیسا یہ سب کچھ تو کھو جانا ہے جو نہ چاہو گے وہ بھی ہو جانا ہے لمحہ لمحہ

Muhabbat jhot lagti hai mujay

مُحبت جھوٹ لگتی ہے مُجھے اک کھوکھلا جذبہ جسے اظہار کی ہر وقت خواہش ہو کہے جانے کی سُننے کی جسے ہر پل ضرورت ہو “مُجھے تم سے مُحبت ہے “ نہ جانے روز کتنے لوگ اس جُملے کو سنُنے کے لیئے بیدار ہوتے ہیں یہ ایسا جھوٹ ہے جس کا سحر صدیوں سے طاری ہے مگر جاناں مُحبت جب کبھی اظہار کو ترسے کوئی تُم سے اگر کہہ دے “مُجھے تم سے مُحبت ہے ‘‘ تو اُسکی بات مت سُننا مُحبت روح سے پھوٹے مُحبت عکس بن جائے تو تُم کو پھر یقیں آئے کہ میں نے سچ کہا تُم سے مُحبت روح بن جائے تو پھر اُسکا یقیں کرنا وگرنا ایک جُملہ کوئی کتنی بار دُہرائے 'کہے جائے ‘ نہی سُننا 'مُحبت جھوٹ ہے جاناں اگر اظہار کی اسکو ضرورت ہو

Mujay awaz de lena

مجھے آواز دے لینا نئے پھولوں پہ رنگیں تتلیاں جب مسکرائیں تو گئے موسم کی یا د یں جب تمھارا دل جلا ئیں تو مجھے آواز دے لینا کسی ما نوس رستے پر کوئی جب تم صدا پاؤ میری یادوں کی اپنے گھر میں جب تھوڑی جگہ پاؤ مجھے آواز دے لینا گئے لمحوں میں میری قربتیں جب یاد آئیں تو کبھی راتوں میں میری آہٹیں تم کو ستا ئیں تو مجھے آواز دے لینا کہیں ایسا نہ ہو میری سما عت تھک کے سو جائے یہ میرا دل تمھارا تن کسی دوجے کا ہو جائے تمھیں پانے کی حسرت یونہی دل میں گھٹ کے مر جا ئے تمھیں احساس نہ ہو اور کوئی جاں سے گزر جائے تم اس سے پیشتر مجھ پہ میری جاناں کرم کرنا مجھے آواز دے لینا مجھے آواز دے لینا

hum nasheen poch na mj se ke muhabbat kya hai

ہمنشیں! پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ سن کر نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں! قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ یاس آئینۂ امید میں نقاشِ الم پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ شب ہی کچھ نازکشِ پرتوِ خورشید نہیں سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت وعدۂ خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ کون معشوق ہے ، کیا عشق ہے ، سودا کیا ہے؟ میں تو اس فکر میں گم ہوں کہ یہ دنیا ہے

es abad kharaby main

اس آباد خرابے میں : ابن انشاء لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب ذہن نے کھولی، رُکتے رُکتے، ماضی کی پارینہ کتاب یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب گُزری بات، صدی یا پل ہو، گُزری بات ہے نقش بر آب یہ رُوداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں شہرِ تمنّا کے مرکز میں، لگا ہُوا ہے میلا سا کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے، اک رنگیں گُلزار کھلا وہ اک بالک، جس کو گھر سے ، اک درہم بھی نہیں ملا میلے کی سج دھج میں کھو کر، باپ کی اُنگلی چھوڑ گیا ہوش آیا تو، خُود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا بھیڑ میں راہ ملی نہی گھر کی، اس آباد خرابے میں دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں وہ بالک ہے آج بھی حیراں، میلا جیوں کا تُوں ہے لگا حیراں ہے، بازار میں چُپ چُپ ،کیا کیا بِکتا ہے سودا کہیں شرافت، کہیں نجات، کہیں مُحبّت، کہیں وفا آل اولاد کہیں بِکتی ہے، کہیں بُزرگ، اور کہیں خُدا ہم نے اس احمق کو آخر، اِسی تَذبذُب میں چھوڑا اور نکالی، راہ مَفر کی، اس آباد خرابے میں دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، ا

Mohabbat esy raisham na smjo tum

محبت اسے ریشم نہ تم سمجھو نہ اس کی ڈور میں الجھو بہت نازک سی کلی ہے اسے محسوس کردیکھو بہاروں سے خزاں تک کے سفر کو جانتی ہے یہ اسے نہ تم غلط سمجھو نہ یہ تم کو غلط سمجھے اسے کوئی یقین مت دو محبت جانتی سب ہے کسی کی بے وفائی کےسبب پہچانتی ہے یہ اسے خالی نہ تم سمجھو اسے باقی نہ تم سمجھو یہ ہوتی ہے تو ہوتی ہے مگر یہ کُل نہیں ہوتی کہ دل سے دل کو جاننے کے سبھی گرجانتی ہے یہ اسے کوزہ نہ تم سمجھو اسے قطرہ نہ تم سمجھو سمندر کی شکل ہے یہ بہت پرزور موجیں ہیں کبھی جو جوش میں‌ آئے چٹانوں سے ٹکرانا جانتی ہے یہ اسے خواہش نہ تم سمجھو اسے آشیانہ تم سمجھو یہ اک خواب جیسی ہے چراغ آب جیسی ہے لگا کے آگ سینوں‌ میں جلانا جانتی ہے یہ اسے لمحہ نہ تم سمجھو اسے آخر نہ تم سمجھو ازل سے یہ ابد تک ہے کبھی یہ مر نہیں سکتی دھواں بن کے پھر لمحوں میں سمٹنا جانتی ہے یہ

ghuzre hoye lamhon ki ulji hoye door ki us taraf

گذرے ہوئے لمحوں کی اُلجھی ہوئی ڈور کے اُس طرف خواب میرے جہاں دفن مٹی میں تھے بارشوں نے وہاں گھاس اتنی اُگا دی کوئی رہنما سی علامت ، نشانی کوئی ، کچھ بچا ہی نہیں کچھ بچا ہی نہیں کہ کسی کی یاد کی کوئی اُلجھی ہوئی ایک گرہ کھولتے ! وہ سِرا ڈھونڈتے ! ایک بھیدوں بھرا ، اور زمانوں پر پھیلا ہوا ! وہ سِرا ڈھونڈتے ! جو کہیں خواب اور اس کی تعبیر کے درمیان میں کھو گیا ! ہوچکی بہت ہجر کی بارشیں دن بہت جا چکے ! خواب میرے جہاں دفن مٹی میں ہیں اب وہاں ہر طرف گھاس ہی گھاس ہے اور اس گھاس میں سرسراتا ہوا سانپ سا ایک ڈر ہے کہیں یہ نہ ہو ! ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سِرا بھی مل جائے وہ گِرہ کُھل جائے تو لمحوں کی اُلجھی ہوئی ڈور کے اُس طرف کچھ نہ ہو

Palat k daikna chaho to nafraton se udhar

پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر دِنوں کی راکھ پہ راتوں کی یخ ہتھیلی پر ہوا کے ناچتے گِرداب میں کہیں بجھا ہوا کوئی لمحہ کسی چراغ کا داغ نظر پڑے تو سمجھنا کہ میں بھی زندہ ہوں کہ میں بھی زندہ ہوں اپنے اُجڑے دل کی طرح اُجڑا دل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر ہر ایک شام دھڑکتے ہیں خواہشوں کے کواڑ ہر ایک رات بکھرتی ہے آرزو کی دھنک ہر ایک صبح دہکتے ہیں زخم زخم گلاب اُجڑا دل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر ہر ایک پل میری آنکھوں میں ڈھل کے ڈھلتا ہے ٹپکتی رُت کی تپش سے بدن پگھلتا ہے اُجڑا دل کہ جہاں ڈوبتا ہوا سورج جبینِ وقت پر لکھتا ہے دوریوں کا پیام پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر پسِ غبار درخشاں ہے کب سے ایک ہی نام وہ نام جس پہ ہے مسلسل اعتماد مجھے وہ نام لوحِ جاں پر اُبھر کے بولتا نام نظر پڑے تو سمجھنا کہ تم ہو یاد مجھے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

Kaheen barish k mosam main

کبھی بارش کے موسم میں ہوائیں شور کرتی ہیں خیالوں کا موسم بھی جب ابر آلود ہو جائے کوئی اُمید کا تارا کہیں چمکنے سے پہلے ہی بجھ جائے کسی ویران رہ گزر پر آہٹ کا ہر امکان مٹ جائے سکوت مضمحل فضا میں ہر طرف گُھل جائے گزرتا وقت بھی ٹھہر جائے اُسی لمحے اُداسی دہلیز پر اُترتی ہے ہوا تھم سی جاتی ہے حبسِ جاں اور بڑھتا ہے دل کسی صورت پھر بہلتا نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

main sochti reh jati hun

میں سوچتی رہ جاتی ھوں جب الفاظ میں ڈھل جاتی باتیں کس نے کہی سوچ کر رہ جاتی ھوں دل کی زباں ھونٹوں سے بیاں ھو پھول کچھہ ایسے کھلے میرے من میں بہار کا انتظار ھو میرے گلشن میں بند آنکھیں ھےخواب اس کے ھے دھندلا چہرہ ھے نظارے اسکے ھے یہ احساسات خیالات سب اس کے ھے

koi ek shakhs yun milay k sakoon milay

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے کوئی ایک لفظ تو ایسا ھو کہ قرار ھو کہیں ایسی رت بھی ملے ھمیں جو بہار ھو کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ھمیں پیار ھو! کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں کائی غم ھو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ھو میں سفر میں ھوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ھو مجھے شوق ھے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ھو !غمِ ھجر ھو، شبِ تار ھو، بڑا طول ھو۔۔۔ کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو کہ جو عکسِ ذات ھو، ھو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔ کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

tumhay yaad hai janah

تمہیں یاد ہے جاناں گزشتہ سال نومبر میں اسی طرح کا موسم تھا ،،،،، جب تم نے کہا تھا مجھ سے چلو ہم نام بدلتے ہیں کوئی اچھے سے فرضی نام ہاں ! اس وقت میں نے تمہاری بات ان سنی سی کردی تھی مگر جب سے لگی ٹھوکر تو اب کچھ نام ذہن میں آگۓ آج سے اسی نومبر میں وہ فرضی نام ۔نام رکھے ہیں میرا نام آج سے "تنہا " اور تمہارا نام "موسم " ہے " تنہا " اناپرست ٹھرا اور موسم" بیوفا" جاناں

ghaisoye sham main ek sitara ek khayal

گیسؤ ِےشام میں ایک ستارہ ایک خیال دل میں لئے پھرتے ہیں تمہارا ایک خیال بام ِفلک پر سورج، چاند، ستارے تھے ہم نے بیاض ِدل پہ اتارا ایک خیال کبھی تو ان کو بھی دیکھو، جن لوگوں نے عمر گنوائی اور سنوارہ ایک خیال یوں بھی ہوا ہے دل کے مقابل دنیا تھی پھر بھی نہ ہارا، پھر بھی نہ ہارا ایک خیال ایک مسافت، ایک اداسی، ایک فراز ایک تمنا، ایک شرارہ، ایک خیال

ye udaas ankhian mere

میرا سورج یہ اداس آنکھیں میری--- کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر--- راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا--- ایسا بادل--- جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کر دے--- ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے--- روح کو جل تھل کر دے--- اداس آنکھیں میری---- ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اس رات کے دروازے پر--- راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا--- ایسا سورج--- جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کر دے---- خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے---- بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں---- وہ جو اک لمحہ امر ہے--- وہ ٹھہرتا ہی نہیں--- بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں--- میرا سورج !!! میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں

jo mere zameen ka hakim na zamidar hota

جو مری زمیں کا حاکم نہ زمیندار ہوتا وہاں صنعتیں بھی لگتیں وہاں روز گار ہوتا جو ہوس رہی ہمیشہ وہ ہوس اگر نہ ہوتی تو یہ نفرتیں نہ بڑھتیں نہ یہ انتشار ہوتا جو ذرا سا ہوتا ایماں جو ضمیر پاس ہوتا تو کبھی بھی یوں مسلماں نہ ذلیل و خوار ہوتا جو ظفر گھٹا اُٹھی تھی وہ گھٹا اگر برستی تو یہ گرد ہی نہ اُٹھتی نہ کوئی غبار ہوت

mere bachon ke chehron par bhook ugh rahe hay

میرے بچوں کے چہروں پہ بھوک اگ رہی ہے میرے ماتھے سے میری خدائی کا سورج طلوع ہو رہا ہے میرے ماتھے پہ فٹ پاتھ کے ان مکینوں کی لاشیں سجی ہیں جنکے ہاتھوں میں قسمت نے لکھا ہوا ہے بے خبر سو رہو بے خبر سو رہو مت کسی سے دکھوں کی کہانی کہو

Nazar utaon

نظر اٹھائوں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں نظر جھکائوں تو شیر قالین گھورتا ہے مرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے کوئی مجھے ان سفید پتھر کے گنبدوں سے رہا کرائے میں اک صدا ہوں مگر یہاں گنگ ہوگیا ہو مرے لیے تو انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی جہاں میری بات گونجتی تھی

ghaoon ke ujray hoye madfun main ponam ka talasum

تریاق گاؤں کے اجڑے ہوئے مدفن میں پونم کا طلسم آج کی تہذیب کے ہر زہر کا تریاق ہے شہر والوں کی تبسم کی ریاکاری سے دور محفلوں کی کھوکھلی سنجیدہ گفتاری سے دور الجھے الجھے سے دلائل کی گرانباری سے دور محفلیں لوح تکلف کی وہی پٹتی لکیر اپنی اپنی چار دیواری کے زنداں میں اسیر کیا کرے وہ جس کے دس میں وسعت آفاق ہے آ سحر تک اس دبستان حقیقت میں پڑھیں موت کے بوڑھے معلم سے کتاب زندگی

Sham gham ki sahar nhi hoti

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں بے کلی اس قدر نہیں ہوتی نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی چاند ہے، کہکشاں ہے تارے ہیں کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی ایک جاں سوز و نامراد خلش اس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی دوستو، عشق ہے خطا لیکن کیا خطا درگزر نہیں ہوتی رات آکر گزر بھی جاتی ہے اک ہماری سحر نہیں ہوتی بے قراری سہی نہیں جاتی زندگی مختصر نہیں ہوتی ایک دن دیکھنے کو آجاتے یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی حُسن سب کو خدا نہیں دیتا ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی دل پیالہ نہیں گدائی کا عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

Hairan hon dil ko rowon ke peeton jigar ko main

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہر اک سے پُو چھتا ہوں کہ “ جاؤں کدھر کو مَیں“ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں ہے کیا، جو کس* کے باندھیے میری بلا ڈرے کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘ یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندرِ ناز دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں

un he afzaish wahshat ke jo saman hongy

یونہی افزائشِ وحشت کےجو ساماں ہوں گے دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئ ارماں ہوں گے ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں ہوں گے اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے عہد میں تیرے کہاں گرمئ ہنگامۂ عیش گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے موت پھر زیست نہ ہوجائے یہ ڈر ہے غالب وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے

Wo shakh mehtab kat chuki hai buht dinon se

وہ شاخِ مہتاب کٹ چکی ہے بہت دِنوں سے وہ شاخِ مہتاب کٹ چکی ہے کہ جس پہ تم نے گرفتِ وعدہ کی ریشمی شال کے ستارے سجا دئیے تھے بہت دنوں سے۔۔۔ وہ گردِ احساس چھٹ چکی ہے کہ جس کے ذرّوں پہ تُم نے پلکوں کی جھالروں کے تمام نیلم لُٹا دئیے تھے! اور اب تو یوں ہے کہ جیسے لب بستہ ہجرتوں کا ہر ایک لمحہ طویل صدیوں کو اوڑھ کر سانس لے رہا ہے اور اب تو یوں ہے کہ جیسے تم نے پہاڑ راتوں کو میری اندھی اجاڑ آنکھوں میں ریزہ ریزہ بسا دیا ہے کہ جیسے میں نے فگار دِل کا ہُنر اثاثہ کہیں چھپا کر بھُلا دیا ہے! اور اب تو یوں ہے کہ اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر میرے بدن پر سجے ہوئے آبلوں سے بہتا لہو نہ دیکھو (مجھے کبھی سرخرو نہ دیکھو) نہ میری یادوں کے جلتے بجھتے نشاں کریدو! نہ میرے مقتل کی خاک دیکھو اور اب تو یوں ہے کہ اپنی آنکھوں کے خواب اپنے دریدہ دامن کے چاک دیکھو! کہ گردِ ا حساس چھٹ چکی ہے کہ شاخ ِ مہتاب کٹ چکی ہے

Kuch bhi to nahi jaisa

کچھ بھی تو نہیں ویسا کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا جتنا تجھے چاہا تھا سوچا تھا تیرے لب پر کچھ حرف دعاؤں کے کچھ پھول وفاؤں کے مہکیں گئے میری خاطر کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا محسوس یہ ہوتا ہے دکھ جھیلے تھے جو اب تک بے نام مسافت میں لکھنے کی محبت میں پڑھنے کی ضرورت میں بے سود ریاضت تھی بے فیض عبادت تھی جو خواب بھی تھے دیکھے ان جاگتی آنکھوں نے سب خام خیالی تھی پھر بھی تجھے پانے کی دل کے کسی گوشے میں خواہش تو بچا لی تھی لیکن تجھے پا کر بھی اور خود کو گوا کر بھی اس حبس کے موسم کی کھڑکی سے ہوا آئی نا پھول سے خوشبو کی کوئی بھی سدا آئی اب نیند ہے آنکھوں میں نا دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی نا لفط میرے نکلے نا حرف و معانی کی دانش میرے کام آئی ندیدہ رفاقت میں جتنی بھی اذیت تھی سب میرے ہی نام آئی کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا جیسا تجھے چاہا تھا

auqat

اوقات میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات اُچا تیرا نام اے ربَ اُچی تیری ذات رحمتاں تیریاں برسا برسنو، کی سیّد تے کمہار تیری نظر وچ سب برابر نا موچی نا سردار بندہ اوہ ہی چنگا جو کرے تیرے بندے نال پیار میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات نا میں تکیا کعبہ تے نا میں گیا میستی نا میں پڑھی نماز پنگانہ نا خیرات کیتی فیر وی تیرا کرم اے ربَ کوئی کمی نا کیتی میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات مرشد میرا تو ں اے ربَ توں ہی میرا والی ا کو اک تیرا نام کر دی تیری ذات رکھوالی کر قبول میری عرضی میں ہاں اک سوالی میں ہاں کمی کمین اے ربَ میری کی اوقات اوچا تیرا نام اے ربَ اوچی تیری ذات

bazar ki gharmi ko haddat nhi ghardana

بازار کی گرمی کو حّدت نہیں گردانا قیمت کو کسی شے کی قیمت نہیں گردانا اعصاب سوالوں میں مصروف ہی ایسے تھے فرصت کو کبھی ہم نے فرصت نہیں گردانا نیلام کیا ہم نے حسّاس طبیعت کو جب دل نے تمنا کو حسرت نہیں گردانا دکھ ہجر کے کھولے ہیں بستر کی اذیّت نے تکیے کو سرہانے کی خدمت نہیں گردانا تاخیر زدہ رکھّا معلوم کے خطروں کو اِدراک کی سُرعت کو سُرعت نہیں گردانا مُٹھّی میں رکھا ہم نے اُڑتے ہوئے بالوں کو وحشت کو کبھی ہم نے وحشت نہیں گردانا بدنام ہوئی میری شمشیر کی عریانی دشمن نے مروّت کو مہلت نہیں گردانا تبدیل کیا گویا ترتیبِ عناصر کو جانے کو ترے ہم نے ہجرت نہیں گردانا کچھ اُس کے تقرّب کی تسکین ہی ایسی تھی جذبات کی شدّت کو شدّت نہیں گردانا جب زہر دیا اُس نے ہم جاں سے نہیں گزرے حیرانی کے عالم کو حیرت نہیں گردانا کچھ دل ہی ملوث تھا خدشوں کی ترقی میں اک رنج کو بھی غم کی صورت نہیں گردانا حیرت کے تناظر میں دھوکا دیا آنکھوں نے سُرخی کو ترے لب کی سُرخی نہیں گردانا بیٹھا تھا سرِ محفل ہوکر میں دھواں لیکن یاروں نے مجھے حسبِ حالت نہیں گردانا میں نے تو اسے محسن سو رُوپ دیے پھر بھی اُس نے مری صورت

Parwana aur jungno

پروانہ اور جگنو پروانہ پروانے کي منزل سے بہت دور ہے جگنو کيوں آتش بے سوز پہ مغرور ہے جگنو جگنو اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہيں ميں دريوزہ گر آتش بيگانہ نہيں ميں بال جبرائیل علامہ اقبال

Iblees ki arzdasht

ابليس کي عرضداشت . کہتا تھا عزازيل خداوند جہاں سے پرکالہء آتش ہوئي آدم کي کف خاک! جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زيب دل نزع کي حالت ميں ، خرد پختہ و چالاک! ناپاک جسے کہتي تھي مشرق کي شريعت مغرب کے فقيہوں کا يہ فتوي ہے کہ ہے پاک! تجھ کو نہيں معلوم کہ حوران بہشتي ويراني جنت کے تصور سے ہيں غم ناک؟ جمہور کے ابليس ہيں ارباب سياست باقي نہيں اب ميري ضرورت تہ افلاک! بال جبرائیل علامہ اقبا

be kas ki ye jurrat ke musalman ko tokay

ہے کس کی يہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے حريت افکار کی نعمت ہے خدا داد چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس چاہے تو کرے اس ميں فرنگی صنم آباد قرآن کو بازيچہ تاويل بنا کر چاہے تو خود اک تازہ شريعت کرے ايجاد ہے مملکت ہند ميں اک طرفہ تماشا اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد ضربِ کلیم۔ علامہ اقبال

Meri dehlez pe bheti hoye zanon pe sir rakkay

مری دہلیز پر بیٹھی ہوئی زانو پہ سر رکھے یہ شب افسوس کرنے آئی ہے کہ میرے گھر پہ آج ہی جو مر گیا ہے دن وہ دن ہمزاد تھا اس کا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آئی ہے کہ میرے گھر میں اس کو دفن کر کے اک دیا دہلیز پر رکھ کر نشانی چھوڑ دے ۔ ۔ ۔ کہ محو ہے یہ قبر اس میں دوسرا آ کر نہیں لیٹے ۔ ۔ ۔ میں شب کو کیسے بتلاوں بہت دن میرے آنگن میں یونہی آدھے ادھورے سے کفن اوڑھے پڑے ہیں کتنے سالوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ جنہیں میں آج تک دفنا نہیں پایا ۔ ۔ ۔ ۔

Gulo main rung baray bad e nobahar chaly

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبر چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھـ تو کہو کہیں تو بہـــرخـــدا آج ذکر یار چلے کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئنگے غمگسار چلے جو ہم پہ گذری سو گذری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے حضور یار ہوئے دفتر جنوں کی طلب گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے مقام، فیض، کوئے راہ میں جچا ہی نہیں جو کوی یار سے نکلے تو سوی دار چلے

usay ye kehna,mujay na sochai

اسے یہ کہنا، مجھے نہ سوچے۔ میں دل گرفتہ ادھورا شاعر، میں الجھی سوچوں، بکھرتی نظروں، بھٹکتی راہوں کا اک مسافر۔ خیال ترچھے، سوال آڑھے، قدم میرے لڑکھڑا چکے ھیں ۔ سوال ایسے ، ازل سے جن پر، ضمیر آدم نے کچھ نہ سوچا۔ جواب ایسے کہ گر کبھی ، خود کو بھی بتاؤں، تو کانپ جاؤں۔ گزرتے لمحوں کی گرد، چہرے پہ، تہ بہ تہ ، جمتی ہی جا رہی ھے۔ نقوش میرے، مٹا رہی ھے، میں اپنا خنجر، خود اپنی ، شہ رگ پہ آزما چکا ھوں۔ میں خود بھی، خود کو، بھلا چکا ھوں ۔ اسے یہ کہنا، مجھے نہ سوچے۔۔!!!!!!!!!!!!!

Khabi khabi mere dil main khayal ata hai

کبھی کبھی میرے دل میں‌خیال آتا ہے کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے تیری نظر کی شعاعوں‌میں‌کھو بھی سکتی تھی عجب نہ تھا کہ میں‌ بے گانہ الم ہو کر تیرے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں انہی حسین فسانوں میں‌محو ہو رہتا پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں گھنیری زلفوں کے سایہ میں‌چھپ کے جی لیتا مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں‌تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے اسے کسی کے سھارے کی آرزو بھی نھی زمانے بھر کے دکھوں کا لگا چکا ہوں گلے گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں‌ سے مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں حیات و موت کے پرہول خارزاروں سے نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ بھٹک رہی ہے خلاؤں ‌میں ‌زندگی میری انہی خلاؤں میں‌ رہ جاؤں گا کبھی کھو کربھ میں‌ جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی کبھی کبھی میرے دل میں‌ خیال آتا ہے ساحر لدھیانوی۔۔۔۔

Imamat

حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ضرب کلیم کی نظم "امامت" تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب ا سرار کرے ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے دے کے احساس زیاں تیر ا لہو گرما دے فقیر کی سان چڑ ھا کر تجھے تلوار کرے فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

apne bistar pe buht dair se main neem daraaz

اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہو گا میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ و بُو میں روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہو گا اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہو گا!؟ آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟ میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہو گا کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہو گا کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہو گا وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہو گا راہداری میں ، ہرے لان میں ،پھُولوں کے قریب اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہو گا نام بھُولے سے جو میرا کہیں آیا ہو گا غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہو گا ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہو گا بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بھُولا ہو گا یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہو گا جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہو گا کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہو گی اُسے اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہو گا چلتے چلتے کوئی مانوس

Zindaghi gulzar hai

میں نے خدا کو غلط سمجھا شاید ہم سب ہی خدا کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں، ہمیں خدا پر صرف اس وقت پیار آتا ہے جب وہ ہمیں مالی طور پر آسودہ کر دے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم اسے طاقتور ہی نہیں سمجھتے۔ ہم نماز کے دوارن اللہ اکبر کہتے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور نماز ختم کرتے ہی ہم روپے کو بڑا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں مجھے ہميشہ ایسا لگتا تھا کہ خدا مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خدا تو ہر ایک سے محبت کرتا ہے اسی لیے تو اس نے مجھے آزمائشوں میں ڈالا اور وہ اپنے انہیں بندوں کو آزمائشں میں ڈالتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے." عمیرہ احمد کے ناول "زندگی گلزار ہے" سے اقتباس

rawaiye

ہمارے رویے بھی عحیب ہیں - رجوع اللہ کی طرف نہیں ہے ، اپنے معاملات اور خواہشات کی طرف زیادہ ہے - حالانکہ اللہ نے ہمیں جو پرچہ زندگی حل کرنے کے لیے دیا ھے اس کو حل کرنے کی ترکیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دے دی گئی ھے لیکن اسی مقام سے میری کوتاہی شروع ہو جاتی ہے کہ ہم اس ترکیب پر عمل نہیں کرتے- میں آپ سے بھی رائے لوں گا کہ میں اس کوتاھی سے باہر نکلنے کے لیے کیا کروں ؟ میں ڈاکٹر کی دی ھوئی دوائی استعمال کرتے وقت پرچہ ترکیب ضرور دیکھتا ھوں - پرچہ زندگی حل کرتے وقت خدا کے دیئے گئے احکامات یا دی گئی ترکیب کو نظر انداز کر دیتا ھوں " از اشفاق احمد، زاویہ 3 ، عنوان: "ڈبو اور کالو"

Jawab e shekwa

جواب شکوہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئی بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئی چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی' پوشيدہ يہيں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو آئی آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا

Aitemad ki dunya

اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے

karo jo baat karni hai

کرو، جو بات کرنی ہے اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا بس تمہیں سننے کی خاطر گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی تو ایسا ہو نہیں سکتا زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے جِسے تُم وقت کہتے ہو دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے یہ کوئی خواب ہے جیسے نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے کرو، جو بات کرنی ہے

Udass rehna naseeb apna ata tumhari

اُداس رہنا نصیب اپنا، عطا تُمہاری ھے بے نیازی قُبول، گر ھے اَدا تُمہاری ہم اب جو رُوٹھے تو اُس نگر کے مُقیم ھوں گے جہاں سے واپس نہ لا سکے گی صدا تُمہاری محبّتوں کے نصیب میں ھیں اُجاڑ شامیں ہمیں بھی آخر بچا نہ پائی دُعا تُمہاری اَب اِس قدر بھی نہ شدّتوں سے مِلا کرؤ تُم کہیں نہ ہم کو اسیر کر دے وفا تُمہاری

Yaro negah yar ko yaron se ghila hay

یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھیجاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا اک لمحہ ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی صحراؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں بیکار ہوں اور کار گزاروں سے گلہ ہے بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا ان شوخ نگاہوں کے اشاروں سے گلہ ہے شاعر: جون ایلیا

ya rub lab e khamosh ko aisa jamal dy

یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے سوزِ درونِ قلب کو اتنا کمال دے جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات پھر مطمئن وجود کو روحِ غزال دے وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرفِ پُر اثر اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں راحت نہیں ، تو مجھ کو بقائے ملال دے تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبینِ دل اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے

Wehshat ka asar khwaab ki tabeer main hota

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا اک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا اک عالم خوبی ہے میسر مگر اے کاش اس گل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا اس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر اک حلقہ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا مہتاب میں اک چاند سی صورت نظر آتی نسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا مرتا بھی جو اس پر تو اسے مار کے رکھتا غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا اک قامتِ زیبا کا یہ دعوی ہے کہ وہ ہے ہوتا تو میرے حرفِ گرہ گیر میں ہوتا

Nahi zameen pe kisi ka bhi aitbar mujay

نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے کہا تھا کس نے کہ افلاک سے اتار مجھے بہ سطحِ کوزہ گرِ دہر چیختا ہے کوئی میں جیسے حال میں ہوں چاک سے اتار مجھے بس ایک دن کے لئے تو مری جگہ آ جا بس ایک دن کے لئے سونپ اختیار مجھے تجھے کہا تھا کہ لو دے اٹھے گی لاش مری تجھے کہا تھا کہ تو روشنی میں مار مجھے تری صدا کے پلٹنے سے قبل پہنچوں گا تو ایک بار بہ جذبِ جنوں پکار مجھے کبھی تو ماں کی طرح ٹوٹ کر ملے اختر کبھی تو دوڑ کے سینے لگائے دار مجھے

wo koyi aur na tha chand khushk pattay the

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے تمام عمر وفا کے گنہگار رہے یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے شبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میں ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھ شاعر: احمد ندیم قاسمی

Yahan har waqt mela rahega

یہاں ہر وقت یہ میلہ رہے گا مگر یہ دل یونہی تنہا رہے گا جلیں گے جب تلک یہ چاند تارے ہمارے عشق کا چرچا رہے گا یہ دل بھی ڈوب جائے گا کسی دن چڑھا جب حُسن کا دریا رہے گا خلاؤں میں زمیں گم ہو گئی ہے اکیلا آسماں روتا رہے گا تجھے یوں بھولنا ممکن نہیں ہے ابھی دل میں تِرا سودا رہے گا خوشی کی لاش کاندھوں پر اٹھائے یہ دکھ کا کارواں چلتا رہے گا ترے آنے کی کیا خوشیاں منائیں لگا جانے کا جب دھڑکا رہے گا شاعر: احمد فواد

Lab par kisi ka bhi ho dil main tera naqsha hay

لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے بے ترے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر و سکوں تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے نیلے پربت، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو تجھ سے اپنے جی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا یوسف تو بازار وفا میں ایک ٹکے کو بکتا ہے لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول لے جانی اب آدھی شب ہے چار طرف سناٹا ہے طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے جاتے ہیں تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے یا تو آج ہمیں اپنا لے یا تو آج ہمارا بن دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے شاعر: ابن انشاء

Yun to kehny ko buht log shanasa mere

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے