Skip to main content

Posts

Showing posts from June, 2013

Shaam Ka Manzar, Ujla Rasta, Aik Kahani Tu Aur Mein

شام کا منظر، اجلا رستہ، ایک کہانی تو اور میں ڈھلتا سورج، بڑھتا سایہ، کشتی رانی تو اور میں بند اک کمرہ، چپ کا منظر، بھولی بسری، دیپک یاد تنہائی، دکھ، خوف کی لذت، دلبرجانی تو اور میں تتلی خوشبو، رنگ کی باتیں، شبنم سے شرمیلے خواب آس کا پنچھی، گم سم خواہش، رات کی رانی تو اور میں پلکیں، چلمن، شرما شرمی، کم کم گویا نظریں، قرب راتوں جیسی سیدھی سادھی اک نادانی تو اور میں

jo dil main ho so kaho tum na ghuftugo se hatho

جو دل میں ہو، سو کہو تم، نہ گفتگُو سے ہٹو رہو، پر آنکھ کے آگے، نہ رُوبرُو سے ہٹو میں آپ پھیرتا ہُوں، اپنے حلْق پر خنجر چھُری اُٹھالو تم اپنی، مِرے گلُو سے ہٹو شہیدِ ناز کے، ہرزخْم سے ہے خُوں جاری تمھارا، تر نہ ہو دامن کہیں لہُو سے، ہٹو جو پیش آئے وہ مستو، کرم ہے ساقی کا نہ پھیروجام سے منہ، اور نہ تم سبُو سے ہٹو بہادرشاہ ظفر

khwaab tha deeda baidar talak aya tha

شاعر محسن نقوی خواب تھا دیدہ بیدار تلک آیا تھا دشت بھٹکتا ہوا دیوار تلک آیا تھا اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی میرا دشمن میرے کردار تلک آیا تھا اتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ   زخم خود چل کے عزادار تلک آیا تھا عشق کچھ سوچ کے خاموش رہا تھا ورنہ   حسن بکتا ہوا بازار تلک آیا تھا محسن اس وقت مقدر نے بغاوت کر دی   جب میں اس شحص کے معیار تلک آیا تھا

seena dehek raha ho to kya chup rahe koye

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !! ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔ جون ایلیا

main bachpan main

میں بچپن میں سبھی دُکھ گھر کی دیواروں پہ ... لکھ دینے کا عادی تھا مگر پردیس میں آکر ... میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں مجھے ماں نے بتایا ہے کہ اب کی بارشوں میں گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں سو گھر جا کر مجھے دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کا ملبہ اُٹھا نا ہے کہ میں بچپن میں سبھی دُکھ گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا

us ne kaha ke hum bhi khareedar hogaye

اس نے کہا کہ ہم بھي خريدار ہو گئے بِکنے کو سارے لوگ ہي تيار ہو گئے اس نے کہا کہ ايک وفادار چاہيئے   سارے جہاں کے لوگ وفادار ہو گئے اس نے کہا کہ کوئي گنہگار ھے يہاں جو پارسا تھے وہ بھي گنہگار ہو گئے اس نے کہا کہ کاش کوئي جنگجو ملے آپس ميں يار برسرِ پيکار ہوگئے اس نے کہا عديم مرا ہاتھ تھامنا چاروں طرف سے لوگ نمودار ہوگئے عديم ہاشمی

be sabab udassi thi

بے سبب اداسی تھی اب کے اُس کے چہرے پر دُکھ تھا ۔۔۔۔ بے حواسی تھی اب کے یوں ملا مجھ سے یوں غزل سنی ۔۔۔۔۔ جیسے میں بھی نا شناسا ہوں وہ بھی اجنبی جیسے زرد خال و خد اُس کے سوگوار دامن تھا اب کے اُس کے لہجے میں کتنا کھردرا پن تھا وہ کہ عمر بھر جس نے شہر بھر کے لوگوں میں مجھ کو ہم سخن جانا خود سے مہرباں سمجھا مجھ کو دلربا لکھا اب کے سادہ کاغذ پر سرخ روشنائی سے اُس نے تلخ لہجے میں میرے نام سے پہلے صرف ” بے وفا “ لکھا !!!!

Abhi muhabbat naye naye hay

( ابھی محبت نئی نئ ھے ):- ابھی تو ملنے کی ُجستجو ھے ابھی تو مبہم سی گُفتگو ھے ابھی ھے شکوے شکائتوں کا حساب باقی محبتوں کا ابھی ھے سارا نصاب باقی ابھی تعاقب میں رتجگے ھیں ابھی تو خوابوں کے سلسلے ھیں بہت سے دُشوار مرحلے ھیں ابھی تو آنکھوں میں زندگی ھے ابھی تو چہرے پہ تازگی ھے ابھی محبت نئی نئی ھے فاخرہ بتول

DIl-o-Nazar Ki Ibadatein Hon Tou Aansoun Ko Imaam Karna

دل ونظر کی عبادتیں ھوں تو آنسوؤں کو امام کرنا سمندروں کے سفر میں لازم ھے پانیوں سے کلام کرنا جو سجدہ گاہیں تلاش کرنے لگے تو عمریں گذار دو گے خود اپنے سائے کی صف بچھانا وھیں سجود و قیام کرنا میں کارواں سے بچھڑ کر اندھی مسافتوں کے عذاب میں ھوں مرا بھی اے ساربان شمس و قمر کوئی انتظام کرنا جہاں دل میں جو روشنی ھے وہ تیرا حصہ، وہ تیرا قصہ جو ظلمتیں ھیں ملامتیں ھیں وہ سب کی سب میرے نام کرنا یہ تازہ لفظوں کے سارے گلدستے سوکھ جائیں گے جب وہ آئے .........تم ان کی آمد پہ احتیاطا کچھ اور بھی انتظام کرنا

Jo Din Guzar Gaey Hein tere Iltafaat Mein

جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں

wo jo tal jati rahe sir se bala sham ke bad

وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملو گی کب تک اس نے بے چینی سے فوراً ہی کہا شام کے بعد میں اگر خوش بھی رہوں پھر بھی میرے سینے میں سوگواری روتی ہے میرے گھر میں سدا شام کے بعد تم گئے ہو تو سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے پھرتی رہتی ہے میرے گھر قضا شام کے بعد لوٹ آتی ہے میری شب کی عبادت خالی جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد دن عجب مٹھی میں جکڑے ہوئے رکھتا ہے مجھے مجھ کو اس بات کا احساس ہوا شام کے بعد کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلسل مجھ کو دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد فرحت عباس شاہ

wahi per mujay yaad any lagy hain

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں خمار بارہ بنکوی

us ne jub chahny walon se itaaat chahi

اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی یونہی بیکار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا اس کو فرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رخصت چاہی شکوہ ناقدریِ دنیا کا کریں کیا کہ ہمیں کچھ زیادہ ہی ملی جتنی محبت چاہی رات جب جمع تھے دکھ دل میں زمانے بھر کے آنکھ جھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حیرت کیوں ہے ہم نے آبا کے حوالے سے فضیلت چاہی میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فرازؔ عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی احمد فراز

na ab raqeeb na naseh na gham ghusar koye

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا فیض احمد فیض

karaingy naqd hasrat ka shumar ahista ahista

کریں گے نقدِ حسرت کا شمار آہستہ آہستہ اتاریں گے تمنا کا ادھار آہستہ آہستہ یقیں میری وفا پر اُن کو آتے آتے آئے گا چھٹے گا بے یقینی کا غبار آہستہ آہستہ ابھرتا ہے کوئی چہرہ طلوعِ مہر کی صورت بناتا ہے مصور شاہکار آہستہ آہستہ تبسم دھیرے دھیرے ان کے ہونٹوں پر ابھرتا ہے وہ سنتے ہیں مِرے دل کی پکار آہستہ آہستہ شبِ غم چٹکیاں لیتی ہے انکی یاد رہ رہ کر ہلاتے ہیں وہ سازِ دل کے تار آہستہ آہستہ مِرا زخمِ تمنا بنتے بنتے پھول بنتا ہے اترتی ہے مِرے دل میں بہار آہستہ آہستہ زمانہ جبر کی صورت بدلتا ہے مگر کم کم عطا ہوتا ہے مجھ کو اختیار آہستہ آہستہ رہا ہے قرن ہا قرن آفتابِ ارتقا روشن رخِ ہستی پہ آیا ہے نکھار آہستہ آہستہ ابھی کچھ اور ایاز اشکوں سے اسکی آبیاری کر کہ پھل دیتا ہے نخلِ انتظار آہستہ آہستہ ایاز صدیقی

paiman wafa aur hay saman jafa aur

پیمان وفا اور ہے ، سامان جفا اور اس فتنہء دوراں نے کہا اور ، کیا اور تيور الگ ، انداز جدا ، ان کی ادا اور وه اور ہوا میں ہیں ، زمانے کی ہوا اور ترکیب کوئی ان کو منانے کی ہو کیا اور میں جتنا مانتا ہوں ، وه ہوتے ہیں خفا اور پی لیں جو کبھی شیخ تو پی پی کے پکاریں اے ساقیء مےخانہ ذرا اور ، ذرا اور محروم ہوا دین سے دنیا کی طلب میں نافہم نے کچھ اور ہی سوچا تھا ہوا اور پھولوں کی وہاں دھوپ ، یہاں سایہء وحشت گلستاں کی فضا اور ہے ، صحرا کی فضا اور انصاف ملے گا سر میدان قیامت ان کا نہ خدا اور ہے ، نہ میرا ہی خدا اور دیکھیں تو ذرا ہم بھی اسے اے ہمہء خوبی ہم جیسا وفادار کوئی ڈھونڈ کے لا اور چھوڑیں نہ محبت کو "نصیر" اہل محبت یہ شوق خطا ہے ، تو پھر ایک خطا اور پیر نصیرالدین نصیر

Abhi Muntashir Na Ho Ajnabi, Na Wisaal K Karam Jata !

Abhi Muntashir Na Ho Ajnabi, Na Wisaal K Karam Jata ! Jo Teri Talash Main Gum Hoye Kabhi Un Dino Ka Hisaab Kr Mere Sabar Pr Koi Ajar Kiya Meri Dopher Pe Ye Abar Kion? Mujhy Orhny Day Aziyatain Meri Adat Na Kharab Kr. ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا! جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟ مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر

khabi yaad ao to es tarha

کبھی یاد آو تو اس طرح  کہ دل و نظر میں سما سکو  کبھی حد سے حبس جنوں بڑھے تو حواس بن کے بکھر سکو  کبھی کھل سکو شب وصل میں  کبھی خون دل میں سنور سکو سر رہگزر جو ملو کبھی نہ ٹھہر سکو ...نہ گزر سکو

nawaz sharif and shahbaz sharif

ن لیگ والوں سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ صرف مزاح کی حد تک میٹرک کے امتحان میں صرف پاس نمبرز لے کر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی طرف غور سے دیکھا-- بڑا بھائی : تم نے تو بورڈ میں ٹاپ کرنا تھا نا ؟؟؟ کہاں گیا وہ ہر وقت بڑی بڑی بڑھکیں مارنا اب! چھوٹا بھائی : جوش خطابت بھائی جوش خطابت . ( نواز شریف اینڈ شہباز شریف کے بچپن کی کتاب " میں اور میرا بھائی " 

Sardar aur tv

ایک سردار ٹی وی لینے گیا ۔ دکاندار : سر جی یہ والا ٹی وی لیں ، اس کا ریموٹ ایسا ہے کہ گلی کی نکڑ سے بھی چینل بدل دیتا ہے ۔ سردار ایک ہفتے بعد ٹی وی واپس کرنے چلا گیا ۔ دکاندار نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہوا ؟ سردار : مسئلہ تے کوئی نئیں ، پر یار بندہ بار بار چینل بدلن واسطے گلی 

biwi

"شادی شدہ دوستوں کیلئے ایک خوبصورت بات" بیوی اگر غصہ کرنے لگے تو اُس کو صرف اتنا ہی کہہ دیں کہ بڑھاپے میں غصہ تو آ ہی جاتا ہے آئندہ غصہ کرنے سے پہلے ایک بار سوچے گی ضرور!!!

dil hijar ke dard se bhojal hay ab aan milo to behtar ho

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، اک درد کا پھوڑا الہڑ سا نہ گپت رہے، نہ پھوٹ بہے، کوئی مرہم ہو، کوئی نشتر ہو ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں، تم چڑھتی رات کی چندرما ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو اب حسن کا رتبہ عالی ہے، اب حسن سے صحرا خالی ہے چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دکھ کا سورج سر پر ہو‌ اب انشاء جی کو بلانا کیا، اب پیار کے دیپ جلانا کیا جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں، جب دن اور رات برابر ہوں

liye to chalte hain hazrat dil tumhay bhi us anjuman main lakin

لئے تو چلتے ہیں حضرتِ دل تمہیں بھی اُس انجمن میں ،لیکن ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا نہیں ہے کچھ قتل ان کا آساں، یہ سخت جاں ہیں برے بلا کے قضا کو پہلے شریک کرنا، یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا ہلاک اندازِ وصل کرنا کہ پردہ رہ جائے کچھ ہمارا غم ِجُدائی میں خاک کر کے کہیں عدو کی خوشی نہ کرنا مری تو ہے بات زہر اُن کو، وہ اُن کی مطلب ہی کی نہ کیوں ہو کہ اُن سے جو التجا سے کہنا ، غضب ہے اُن کو وہی نہ کرنا

Khuda maujood hai

ایک عالم نے ایک بڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا کہ بڑھیا! ساری عمر چرخہ ہی کاتا یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی ؟ بڑھیا نے جواب دیا کہ بیٹا سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا، فرمایا بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ خدا موجود ہے یا نہیں ؟ بڑھیا نے جواب دیا کہ ہاں ہر گھڑی اور رات دن ہر وقت خدا موجود ہے ، عالم نے فرمایا مگر اس کی دلیل ؟ بڑھیا بولی، دلیل یہ میرا چرخہ، عالم نے پوچھا یہ کیسے ؟ وہ بولی وہ ایسے کہ جب تک میں اس چرخہ کو چلاتی رہتی ہوں یہ برابر چلتا رہتا ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں تب یہ ٹھہر جاتا ہے تو جب اس چھوٹے سے چرخہ کو ہر وقت چلانے والے کی ضرورت ہے تو زمین و آسمان ، چاند ، سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ہوگی، پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے، اسی طرح زمین و آسمان کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے جب تک وہ چلاتا رہے گا یہ سب چرخے چلتے رہیں گے اور جب وہ چھوڑ دے گا تو یہ ٹھہر جائیں گے مگر ہم نے کبھی زمین و آسمان ، چاند سورج کو ٹھہرے نہیں دیکھا تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ہر گھڑی موجود ہے  

khabi barish barasti hay

کبھی بارش برستی ہے  تو مجھ کو یاد آتا ہے   وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا   محبت ایک بارش ہے سبھی پہ جو برستی ہے   مگر پھر بھی نہیں ہوتی   سبھی کے واسطے یکساں   کسی کے واسطے راحت   کسی کے واسطے زحمت ، میں اکثر سوچتی ہوں اب وہ مجھ سے ٹھیک کہتا تھا   محبت ایک بارش ہے سبھی پہ جو برستی ہے   کبھی مجھ پہ بھی برسی تھی   مگر میری لیے بارش کبھی نہ بن سکی رحمت   یہ راحت کیوں نہیں بنتی ؟ کبھی میں خود سے پوچھوں تو   یہ دل دیتا دہائی ہے ، کبھی کچے مکانوں کو بھی بارش راس آئی ہے ؟

yaqeen ki akhri had tak

یقین کی آخری حد تک یقین ہے اور دعویٰ بھی کہ رخصت کرکے بھی اکثر نظر کی آخری حد تک مجھے وہ دیکھتا ہوگا ... مگر اتنے یقین کے بعد بھی میں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا بس ایک مبہم سا ڈر سا ہے کہیں ایسا نہ ہو جائے پلٹ کر میں اسے دیکھوں تو واپس جا چکا ہو وہ

Murghi

ایک مرغی کوقتل کریں تیل میں اسے غسل دیں پھردہی کاسفید کفن دیں شان مصالحےسےخوشبو کی دھونی دیں اسکے بعدچاول میں اسکی قبربنائیں جب تیارہوجاۓ توپھر مجھ کو دعوت دیں تاکہ اسکی مغفرت کی دعا کی جاسکے

Mark aur rah chalti aurat

ایک مرد نے اپنی بیوی سمجھ کر ایک راہ چلتی خاتون کا ہاتھ پکڑ لیا مگر فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا . وہ جلدی سے ہاتھ چھوڑ کر بولا . " معاف کیجیے گا محترمہ ! محض اپنی غلط فہمی کی بنا پر میں آپ کو اپنی بیوی سمجھ بیٹھا تھا . " قسمت پھوٹ گئی ہوگی اس عورت کی ، جسے تم جیسا بے وقوف اور بد صورت شوہر نصیب ہوا . کبھی آئینہ میں اپنی شکل دیکھی ہے . کالا منه ، فضول قسم کے کپڑے اور آنکھیں تو ایسی سرخ ہیں جیسے نشہ کیا ہو . " " خدا کی پناہ . . . ! محترمہ آپ کی صورت ہی نہیں بلکہ گفتگو بھی میری بیوی جیسی ہے *......................*

Kisan aur bachai

ایک کسان نے اپنے دس کے دس بچوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا ہوا تھا۔ اور ان سے تفتیش ہورہی تھی کہ " بتاؤ چھت پر رکھے ڈرم کو کس نے دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرایا ؟ " کسی بچے نے کوئی جواب نہ دیا۔ کسان نے پھر زور دے کے پوچھا۔" ڈرم کو کس نے دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرایا تھا؟" ایک بار پھر کسی نے جواب نہ دیا۔ کسان نے کہا۔ " ٹھیک ہے ۔ میں ایک کہانی سناتا ہوں ۔ ایک تھا بادشاہ اور ایک تھا اس کا بیٹا شہزاد...ہ۔ ایک دن شہزادے نے کلہاڑے سے بادشاہ کا پسندیدہ انار کا درخت کاٹ دیا۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے سب سے پوچھا کہ درخت کس نے کاٹا ؟۔ شہزادے نے سچ بولا کہ اس نے درخت کاٹا۔ بادشاہ اس کے سچ بولنے پر خوش ہوا اور اس کو کوئی سزا نہ دی۔ اور اس کو معاف کردیا۔ اب بتاؤ کہ ڈرم کو دھکا کس نے دیا تھا؟ " یہ سن کر سب سے چھوٹا بیٹا بول پڑا کہ ڈرم کو اس نے دھکا دیا تھا۔ کسان نے آگے بڑھ کر بیٹے کو دو تین تھپڑ لگا دیے ۔ تھپڑ کھا کر معصوم بیٹا رونے لگ گیا اور اپنے سرخ انار جیسے گال سہلاتا ہوا بولا ۔ " شہزادہ سچ بولا ، اس کو سزا نہیں ۔ میں سچ بولا تو مجھے سزا کیوں؟ ...

2 bachai

دو بچوں کی انتہائی تمیزدار و تہذیب دار لکھنؤ سٹائل کی لڑائی پہلا: دیکھیں اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم آپ کے والد محترم کی شان میں گستاخانہ کلمات پیش کر دیں گے۔ دوسرا: تو حضور پھر ہم بھی آپ کے رخسار مبارکپر ایسا طمانچہ بجا لائیں گے کہ گال گلاب کی مانند چمکنے لگیں گے۔ پہلا: تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں دوسرا: اجی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں تو اتنی کھنکھناتی آواز کیوں ہو رہی ہے آپ کی؟ پہلا: دیکھیں اب آپ حد عبور کر رہے ہیں. ایسا نا ہو کہ ہم ایک چماٹ آپ کے چہرہ مبارک پر دھر دیں اور بوجہ ہمارے نشانِ دست آپ لوگوں سے اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور ہوں پہلا : اگر ہم برداشت کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز مت لیجئے کہ آپ کو لب کشائی کی پوری پوری آزادی ہے. ہاتھ ہمارے بھی الحمدللہ کوئی بندھے ہوئے نہیں ہیں دوسرا: ہاں ہاتھ تو آزاد ہوں گے لیکن عقل پر ضرور گرہ لگی ہوئی ہے

Ab teri yaad se wehshat nahi hoti mujko

اب تیری یاد سے وحشت نہیں‌ہوتی مجھ کو زخم کھلتے ہیں پر ازیت نہیں ہوتی مجھ کو اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو ایسے بدلہ ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں‌ ہوتی مجھ کو ہے امانت میں‌خیانت سو کسی کی خاطر کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں‌ہوتی مجھ کو محسن نقوی

kash hum khol ke zindagi karte

کاش ہم کھل کے زندگی کرتے! عمر گزری ہے خودکشی کرتے! بجلیاں اس طرف نہیں آئیں ورنہ ہم گھر میں روشنی کرتے کون دشمن تری طرح کا تھا؟ اور ہم کس سے دوستی کرتے؟ بجھ گئے کتنے چاند سے چہرے دل کے صحرا میں چاندنی کرتے عشق اجرت طلب نہ تھا ورنہ ہم ترے در پہ نوکری کرتے اس تمنا میں ہو گئے رسوا ہم بھی جی بھر کے عا شقی کرتے حسن اس کا نہ کھل سکا محسن تھک گئے لوگ شاعری کرتے

ishq me tere koh e gham sir par liya jo ho so ho

عشق میں تیرے کوہِ غم سر پہ لیا، جو ہو سو ہو عیش و نشاطِ زندگی چھوڑ دیا، جو ہو سو ہو عقل کے مدرسے سے اُٹھ عشق کے میکدے میں آ جامِ فنا و بےخودی اب تو پی آ، جو ہو سو ہو ھجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اُس کے رو بہ رو ناز و ادا سے مسکرا، کہنے لگا، جو ہو سو ہو ھستی کے اِس سراب میں رات کی رات بس رہے صبحِ عدم ہوا نمو ، پاؤں اُٹھا، جو ہو سو ہو

Ye insan

ہم انسان کس قدر بھولے اور نازک ہوتے ہیں۔۔ کتنی جلدی رشتوں کے کومل دھاگے اپنی روح کے ریشوں سے جوڑ لیتے ہیں۔ شاید ہم اسی لیے پل پل توٹتے اور جڑتے رہتے ہیں۔۔ اللہ نے ہمارے اندر احساس نام کا یہ جو جذبہ رکھا ہے یہ ہمیں کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا، اک آس ٹوٹتی ہے تو دوسری جنم لے لیتی ہے۔ ہاشم ندیم کے ناول " عبداللہ " سے اقتباس