Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2013

Shohar baraye farokht

شوہر برائے فروخت بازار میں اک نئی دکان کھلی جہاں شوہر فروخت کیے جاتے تھے۔ اس دکان کے کھلتے ہی لڑکیوں اور عورتوں کا اژدہام بازار کی طرف چل پڑا ۔ سبھی دکان میں داخل ہونے کے لیے بے چین تھیں۔ دکان کے داخلہ پر ایک بورڈ رکھا تھا جس پر لکھا تھا ۔ “اس دکان میں کوئی بھی عورت یا لڑکی صرف ایک وقت ہی داخل ہو سکتی ہے “ پھر نیچے ھدایات دی گئی تھیں ۔۔۔ ” اس دکان کی چھ منزلیں ہیں ہر منزل پر اس منزل کے شوہروں کے بارے میں لکھا ہو گا ، جیسے جیسے منزل بڑھتی جائے گی شوہر کے اوصاف میں اضافہ ہوتا جائے گا خریدار لڑکی یا عورت کسی بھی منزل سے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے اور اگر اسمنزل پر کوئی پسند نہ آے تو اوپر کی منزل کو جا سکتی ہے ۔مگر ایک بار اوپر جانےکے بعد پھر سے نیچے نہیں آ سکتی سواے باھر نکل جانے کے “ ایک خوبصورت لڑکی کو سب سے پہلے دکان میں داخل ہونے کا موقع ملا، پہلی منزل کے دروازے پر لکھا تھا ۔ ” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں اور الله والے ہیں” لڑکی آگے بڑھ گئی۔دوسری منزل کے دروازہ پر لکھا تھا۔ ” اس منزل کے شوہر برسر روزگار ہیں ‘ الله والے ہیں اور بچوں کو پسند کرتے ہیں “ لڑک...

Zindagi

اشفاق احمد لکھتے ھيں : "زندگي ميں کوئ خوشی, کوئ رشتہ, کوئ جذبہ کبھی مستقل نہيں ھوتا. ان کے پاؤں ھوتے ھيں. ھمارا سلوک اور رويہ ديکھ کے کبھی يہ بھاگ کر قريب آ جاتے ھيں اور کبھی آھستہ آھستہ دور چلے جاتے ھيں" 

Muhabbat

محبت وہ شخص کر سکتا ہے جو اندر سے خوش ہو ۔ مطمئن ہو اور پر باش ہو ۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھورڑ کر ۔ محبت تو روح ہے ۔ ۔ ۔ آپ کے اندر کا اندر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی جان کی جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں ۔ من چلے کا سودا از اشفاق احمد سے اقتباس

Dada ki shadi

ایک بچے نے چھٹی کے لئے اپنی مس کو عذر پیش کیا کہ کل میرے دادا جان کی شادی ہے ،اس لئے میں اسکول نہیں آسکوں گا۔ مس کو یہ بات سُن کر حیرانی ہوئی اور بچے سے پوچھا ۔ ’’تمہارے دادا جان اس عمر میں شادی کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘ بچے نے ادھر ادھر دیکھا، کسی کو متوجہ نہ پاکر مِس کے نزدیک ہوکر رازدارانہ انداز میں آہستہ سے ان کے کان میں بولا۔ ’’اُن کو تو ابھی تک پتا بھی نہیں ہے کہ کل اُن کی شادی ہے ۔ یہ تو میں اپنی مرضی سے کرا رہا ہوں۔

Shukar

میں نے ایک پارسا کو دریا کے کنارے دیکھا جس کو ایک چیتے نے زخمی کر دیا تھا۔ اور اس کا زخم کسی دوا سے اچھا نہ ہوتا تھا۔ عرصہ دراز سے اس تکلیف میں مبتلا تھا مگر ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔  لوگوں نے اس سے پوچھا کہ شکر کس بات کا ادا کرتے ہو ؟ اس نے کہا !!! "اس لیے کہ مصیبت میں مبتلا ہوں، نہ کہ گناہ میں۔ ۔ ۔" ♥حکایاتِ سعدی - - - شیخ سعدی(رح) 

Shadi ki pehli raat

شادی کی پہلی رات شوھر : سب سے پیار سے رہنا سب کی عزت کرنا سب کا حیال رکھنا سچ بولنا ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنا بڑوں کا اخترام کرنا بچوں سے پیار کرنا بیوی:: کمرے کا دروازہ کھول کر . . . .. . سب اندر آجاؤ یہاں درس ہو رہا ہے

Dosron ko paida

کسی بادشاہ کا گزر ایک گاؤں سےہوا اس نے دیکھا ایک بوڑھاآدمی بڑی محنت اور محبت سے پودے لگا رہا ہے بادشاہ دیر تک اس کا یہ کام توجہ سے دیکھتا رہا بوڑھا جب آرام کرنے لگا تو بادشاہ نےپوچھا۔۔۔۔ بابا کیا تمھیں یہ یقیں ھے ان پودوں کے پھلوں سے تم کبھی فائدہ اٹھا سکو گے اگر نہیں تو پھر اس عمر میں اتنی محنت کا فائدہ کیا؟ بابا بولا جناب عالی جو پھل میں کھاتا رہا ھوں وہ پودے کل کسی اور نے لگاۓ تھے اور جو آج میں لگا رھا ھوں انکا پھل وہ کھایئں گےجو کل میرے بعد آیئں گے ھماری زندگی اسی آج اورکل میں گم ھو گی حکمراں کو اپنی حکومت کی کل کی فکر ھے ماں باپ کو اپنی اولاد کی کل کی فکر ھے دوکاندارآج کل کے بارے میں سوچرھا ھے مگر افسوس ہمارا آج اورکل صرف دنیا کیلے ہے مگر آج ھم اس حقیقی کل کی فکر نہیں کرر ھے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا جسے قبر کہتے ہیں جسے میدان محشر کھتے ھیں آئیے آج ھم اس کل کی فکر کرلیں جسکی فکر کی دعوت ھم سب کے رب نے اور پیارے نبی کریمﷺ نے دی ہے۔

Hawas aur mada parasti

طبیعت میں کبھی بھی ہوس اور مادہ پرستی پیدا مت ہونے دینا- کیونکہ ایک مرتبہ نفس ہاتھ سے نکل جائے تو پھر آدمی محل تو کیا پوری دنیا پا کر بھی مطمئن نہیں ہو پاتا- نفس کو ہمیشہ اپنے قابو میں رکھنا چاہیے- قناعت پسندی بڑی نعمت ہے- بڑا پرسکون رکھتی ہے انسان کو ورنہ دنیا پا کر انسان چاند ستاروں کی تمنا کرنے لگتا ہے

Moderen aurat

بہت عرصہ پہلے میرے علاقے میں ایک انتہائی ماڈرن قسم کی بیوہ عورت وہاں آ کر رہنے لگی اس کے دو بچے بھی تھے - ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے - اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں - اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے - لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے - یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی - اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے - گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں - لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں - ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے - اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا  رہا ہوں ، تو آپ کے دل...

Zara Si Raat Dhal Jaey Tou Shayad Neend Ajaey

زرا سی رات ڈھل جائے تو شاید نیند آ جائے زرا سا دل بہل جائے تو شاید نیند آ جائے ابھی تو کرب ہے بے چینی ہے بے قراری ہے طبیت کچھ سنبھل جائے تو شاید نیند آ جائے ابھی تو نرم جھونکوں میں چھپے ہیں تیر یادوں کے ہوا کا رخ بدل جائے تو شاید نیند آ جائے یہ ہنستا مسکراتا قافلہ ستاروں کا زرا آگے نکل جائے تو شاید نیند آ جائے یہ طوفان آسوؤں کا جو امڈ آیا ہے پلکوں تک کسی صورت یہ ٹل جائے تو شاید نیند آ جائے

Taskeen Na Ho Jis Se Woh Raaz Badal Daalo

‫ تسکین نہ ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو جو راز نہ رکھ پائے، ہمراز بدل ڈالو تم نے بھی سُنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے انجام کا جو ہو خطرہ ، آغاز بدل ڈالو پُرسوز دِلوں کو جو مسکان نہ دے پائے سُر ہی نہ مِلے جس ساز میں ، وہ ساز بدل ڈالو دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا تم کھیل وہی کھیلو ، انداز بدل ڈالو اے دوست کرو ہمت کچھ دُور سویرا ہے اگر چاہتے ہو منزل ، تو پرواز بدل ڈالو

Taluq rak liya baqi yaqeen torr aya hun

تعلق رکھ لیا باقی ،  تیّقن توڑ آیا ہوں کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

Jab tera dard mere sath wafa karti hay

جب تیرا درد میرے ساتھ وفا کرتا ہے اک سمندر میری آنکھوں سے بہا کرتا ہے اس کی باتیں مجھے خوشبو کی طرح لگتی ہیں پھول جیسے کوئی صحرا میں کھلا کرتا ہے میرے دوست کی پہچان یہی کافی ہے وہ ہر شخص کو دانستہ خفا کرتا ہے اور تو سبب اس کی محبت کا نہیں بات اتنی ہے وہ مجھ سے جفا کرتا ہے جب خزاں آئی تو لوٹ آئے گا وہ بھی فراز وہ بہاروں میں ذرا کم ہی ملا کرتا ہے

Aazrooein Fuzool Hoti Hen

    آرزوئیں  فضول  ہوتی  ہیں     گویا کاغز کے پھول ہوتی ہیں     ہر کسی کے نام پر نہیں رکتیں     دھڑکنیں با اصول  ہوتی ہیں     پتھروں کےخدائوں کے آگے     التجائیں  فضول  ہوتی  ہیں     کوئی میرے لبوں کو بھی لا دے     جو  دعائیں  قبول  ہوتی  ہیں     خواب ٹوٹیں یا  بک جائیں     قیمتیں کب وصول ہوتی ہیں

Wo aksar muj se kehte thi

وہ اکثر مجھہ سے کہتی تھی وفا  ہے  ذات  عورت  کی مگر جو مرد ہوتے  ہیں بڑے بے  درد  ہوتے  ہیں کسی  بھنورے  کی  صورت گل کی خوشبو لوٹ لیتے ہیں سنو تم کو قسم میری روایت توڑ دینا تم نہ تنہا چھوڑ دینا تم نہ یہ دل توڑ کہ جانا مگر پھر یوں ہوا محسن مجھے انجان رستے پر اکیلا چھوڑ کر اس نے میرا دل توڑ کر اس نے محبت چھوڑ دی اس نے وفا  ہے  ذات  عورت  کی روایت توڑ دی اس نے۔۔۔

Zindagi Dard Bhi Dawa Bhi Thi

زندگی درد بھی ، دوا بھی تھی ہمسفر بھی گریز پا بھی تھی کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن کچھ میری آنکھ میں حیا بھی تھی دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن شب کی آواز بھی سدا بھی تھی عشق نے ہم کو غالب دان کیا یہی تحفہ ، یہی سزا بھی تھی گردباد وفا سے پہلے تک سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی کچھ تو تھی رہگزر میں شمع طلب اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی بے وفا تو وہ خیر تھا امجد لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی

Aaghaz-e-Ishq, Jab Tera Ajaam Aaega

آغاز عشق جب تیرا انجام آئے گا کیا کیا نا اپنی ذات پر الزام آئے گا کیسی اذیتوں سے گزر جائے گا یہ دل کس دکھ سے میرے لب پے تیرا نام آئے گا جا تو رہا ہے دل تیرے اقرار کی طرف میں جانتا ہوں لوٹ کے ناکام آئے گا ہونٹوں کا لمس دے کے مجھ اس نے یہ کہا لے جا اسے سفر میں تیرے کام آئے گا جب مستحب ہوگا دعاؤں کا سلسلہ اک اور دشت حجر میرے نام آئے گا

Sajaye rakha hay aisa sarab ankhon main

سجائے رکھا ہے ایسا سراب آنکھوں میں بکھیر تا ہے جو وہ خواب خواب آنکھوں میں اُلجھ رہا ہے جو منظر بصارتوں سے مری مزاجِ وقت کے رُخ کا نقاب آنکھوں میں خزاں کے دور میں کانٹوں کی حکمرانی ہے کھٹک رہا ہے جو کھلتا گلاب آنکھوں میں محبتوں کا مری کیا ثبوت دوں تم کو تمہارے واسطے لا یا ہوں آب آنکھوں میں مقام اس سے حسیں اور کیا ہو میرے لئے پناہ دیجئے مجھ کو جناب آنکھوں میں نظر کا پھیرنا حق سے، گناہ ہے اطیب اُتار تا ہے وہ اپنا عتاب آنکھوں میں

Abhi kya kahain abhi kya sunain

ابھی کیا کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کیا سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کہ سر ِ فصیل ِ سکوت ِ جاں کف ِ روز و شب پہ شرر نما وہ جو حرف حرف چراغ تھا اسے کس ہوا نے بجھا دیا ؟ کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا! سر ِ شہر ِ عہد ِ وصال ِ دل وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا اسے دست ِ موج ِ فراق نے تہ ِ خاک کب سے ملا دیا ؟ کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا! ابی کیا کہیں ۔۔۔ ابھی کیا سنیں؟ یونہی خواہشوں کے فشار میں کبھی بے سبب ۔۔۔ کبھی بے خلل کہاں، کون کس سے بچھڑ گیا ؟ کسے ، کس نے کیسے بھلا دیا ؟

Dukh bolte hain

دُکھ بولتے ہیں جب سینے اندر سانس کے دریا ڈولتے ہیں جب موسم سرد ہوا میں چُپ سی گھولتے ہیں جب آنسو پلکیں رولتے ہیں جب سب آوازیں اپنے اپنے بستر پہ سو جاتی ہیں تب آہستہ آہستہ کھولتے ہیں دکھ بولتے ہیں ۔ فرحت عباس شاہ

Mehtab sifat log yahan khak basar hain

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں ہم محو تماشائے سرِ راہ گزر ہیں حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سو روتی ہوئی گلیاں ہیں سسکتے ہوئے گھر ہیں آئے تھے یہاں جن کے تصور کے سہارے وہ چاند، وہ سورج، وہ شب و روز کدھر ہیں سوئے ہو گھنی زلف کے سائے میں ابھی تک اے راہ رواں کیا یہی اندازِ سفر ہیں وہ لوگ قدم جن کے لئے کاہکشاں نے وہ لوگ بھی اے ہم نفسو ہم سے بشر ہیں بِک جائیں جو ہر شخص کے ہاتھوں سرِ بازار ہم یوسفِ کنعاں ہیں نہ ہم لعل و گہر ہیں ہم لوگ ملیں گے تو محبت سے ملیں گے ہم نزہتِ مہتاب ہیں ہم نورِ سحر ہیں حبیب جالب

Kaam zuban se he lety hain sary mazhab logh

کام زُباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ طَنز کا اک نشتر کافی ہے پتھر وتھر کیا اول تو ہم پیتے نئیں ہیں, گر پینا ٹھہرے تیری آنکھوں سے پی لیں گے ساغر واغر کیا جیون اک چڑھتا دریا ہے ڈوب کے کر لے پار اس دریا میں کشتی وشتی, لنگر وَنگر کیا مال وال کس شمار میں ہے, جان وان کیا شئے سر میں سودا سچ کا سما جائے تو سَر وَر کیا تُجھ کو دیکھا جی بھر کے اور آنکھیں ٹھنڈی کر لیں  گُل وُل کیا، گُلشن کیا، اور مَنظر وَنظر کیا زیب کہو اللہ کرے فِردوسِ بریں میں مکاں  شعر ویر یہ غزل وزل کیا مُضطروَضطر کیا 

Rang batain karay aur baton se khushbo aye

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے بھیگ جاتی ہیں اس امید پر آنکھیں ہر شام  شاید اس رات وہ مہتاب لبِ جو آئے ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ سراب دشتِ معلوم کی، ہم آخری حد چُھو آئے  سینے وِیران ہُوئے، انجمن آباد رہی  کتنے گُل چہرے گئے، کتنے پری رُو آئے آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیاؔ جشنِ غم طاری ہوا آنکھ میں آنسو آئے ضیاؔ جالندھری

har taraf inbisat hay ay dil

ہر طرف انبساط ہے اے دل اور ترے گھر میں رات ہے اے دل عِشق ان ظالموں کی دنیا میں کِتنی مظلُوم ذات ہے اے دل میری حالت کا پوچھنا ہی کیا سب ترا التفات ہے اے دل اس طرح آنسوؤں کو ضائع نہ کر آنسوؤں میں حیات ہے اے دل اور بیدار چل کہ یہ دُنیا شاطروں کی بساط ہے اے دل صرف اُس نے نہیں دیا مجھے سوز اس میں تیرا بھی ہاتھ ہے اے دل مُندمِل ہو نہ جائے زخمِ دروں یہ مری کائنات ہے اے دل حُسن کا ایک وار سہہ نہ سکا ڈُوب مرنے کی بات ہے اے دل

kaifiat dilon ki kab larkian batati hain

کیفیت دلوں کی کب لڑکیاں بتاتی ہیں ہاں مگر نگاہوں کی مستیاں بتاتی ہیں پیار کا مزا لے کر پھول شرم سے چپ ہیں پیار کا مزا کیا ہے تتلیاں بتاتی ہیں لمس کا نشہ کیا ہے کیا بلا ہے تنہائی کپکپاتے جسموں کو سردیاں بتاتی ہیں خوشبوؤں کے جھونکوں سے جسم و جاں معطر ہیں کس کی یاد گزری ہے کھڑکیاں بتاتی ہیں جب کسی کے ہاتھوں میں مرمریں کلائی ہو دل پہ کیا گزرتی ہے چوڑیاں بتاتی ہیں ہیں بہار کے لب پر اُس کے لب کی تعریفیں گیسوؤں کے بارے میں بدلیاں بتاتی ہیں تشنگی جو من میں ہے بے کلی جو تن میں ہے نرم و گرم ہونٹوں کی سُرخیاں بتاتی ہیں پتا پتا بکھری ہے کائنات سانسوں کی زندگی ہے کیا اطیب آندھیاں بتاتی ہیں

Apne chehre pe zulfain ghira dijaye

اپنے  چہرے پہ زلفیں گرا دیجئے دھوپ کو سائباں میں چھپا دیجئے غم گساری کو دامن بڑھا دیجئے آنسوؤں کو نگینے بنا دیجئے کیا ہے میری خطا یہ بتا دیجئے پھر مجھے جو بھی چاہے سزا دیجئے اپنے جلوؤں کی جنت دکھا دیجئے عشقِ لا چار کو حوصلہ دیجئے یاد کی سیڑھیوں سے اتر کر کبھی میرا شانہ پکڑ کر ہِلا دیجئے نرمہاتھوں سے چھو کر مرےہاتھ کو میری نس نس میں کلیاں کھِلا دیجئے چاندنی بن کے دل میں اُتر آئیے میرے آنگن کی رونق بڑھا دیجئے یاد کی کھڑکیاں کھل رہی ہیں صنم اپنی خوشبو ہوا میں ملا دیجئے حجرۂ دل زمانے سے ویران ہے اپنی تصویر اِس میں سجا دیجئے روٹھ جائیں کبھی مان جائیں کبھی کچھ مٹا دیجئے کچھ بنا دیجئے مجھ کو دنیا کی دولت سے مطلب نہیں اپنے دل میں ذرا سی جگہ دیجئے وقت کی دھوپ میں جل رہا ہے بدن اپنے آنچل کی ٹھنڈی ہوا دیجئے مدتوں سے مچلتا ہے سینے میں دل آج اطیب کی حسرت مٹا دیجئے

Ishq ko jazba o ahsas ki daulat samjo

عشق کو جذبہ و احساس کی دولت سمجھو دل کی دھڑکن ہے اِسے دل کی جلن مت سمجھو کوئی جلوہ ہو ہر اک جلوے میں ہے حق کا ظہور حسن کی قدر کرو عشق کی قیمت سمجھو جو ہے معصوم وہ ماں ، بیوی، بہن، بیٹی ہے  انگلیوں پر جو نچائے اسے عورت سمجھو نیند اُڑ جائے گی دولت کی فراوانی سے جو میسر ہے میاں اُس کو غنیمت سمجھو حُسنِ جاناں کو نگاہوں سے اُتارو دل میں اُس کے رُخ پر جو لکھی ہے وہ عبارت سمجھو اُن کو پانے انھیں چھُونے کی تمنا نہ رکھو اُن کا دیدار بھی ہو جائے تو قسمت سمجھو میں نے دروازے کھلے رکھے ہیں دل کے اطیب شوق سے آؤ اگر میری ضرورت سمجھ و

Main raah e ekhteyar se hat kar nahi chala

میں راہ اختیار سے ہٹ کر نہیں چلا یعنی کہ اعتبار سے ہٹ کر نہیں چلا مجھ کو خبر تھی وجہ بلندی ہے میرا عجز یوں ہی تو انکسار سے ہٹ کر نہیں چلا جس نے کیا تھا راہبر اپنے جنون کو وہ شخص خارزار سے ہٹ کر نہیں چلا گھٹتا رہا نفس بہ نفس اور پھر بھی میں دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر نہیں چلا اب کیا گلہ کریں کہ مراسم میں تیرا قلب اٹھتے ہوئے غبار سے ہٹ کر نہیں چلا بے سمت چل پڑا تھا تجھے ڈھونڈتے ہوئے احسن مگر پکار سے ہٹ کر نہیں چلا ---احسن مرزا

Waisy ghuzar basar ke liye kuch kami nahi

ویسے گزر بسر کے لئے کچھ کمی نہیں  پر زندگی کی جیب میں اک سانس بھی نہیں چاہے بھری ہوئی ہوں ہزاروں تجوریاں بچے کی اک ہنسی سے زیادہ بڑی نہیں احساس سُن رہا ہے حنا بیز دستکیں بینائی کہہ رہی ہے یہاں تو کوئی نہیں لے تو رہے ہیں عہد درخشاں میں سانس ہم حیرت کی بات یہ ہے کہیں روشنی نہیں ماں باپ کی خوشی میں نبی اور خدا ہیں خوش اِس سے بڑی جہان میں دولت کوئی نہیں کچھ ماورا سا ہے مری تخلیق کا جمال خوشبو نہیں ، خیال نہیں، روشنی نہیں انسانیت کا درد اُٹھا تا نہیں ہے جو اطیب مری نظر میں وہ انسان ہی نہیں

tere mehendi bary hathon pe mera naam leka hay

تیرے مہندی لگے ہاتھوں پہ میرا نام لکھا ہے ذرا سے لفظ میں کتنا پیغام لکھا ہے یہ تیری شان کے شایان نہیں لیکن مجبوری تیری مستی بھری آنکھوں کو میں نے جام لکھا ہے میں شاعر ہوں، مگر آگے نہ بڑھ پایا روایت سے لبوں کو پنکھڑی، زلفوں کو میں نے شام لکھا ہے مجھے موت آئے گی جب بھی تیرے پہلو میں آئے گی تیرے غم نے بہت اچھا میرا انجام لکھا ہے میری قسمت میں ہے اک دن گرفتار وفا ہونا میرے چہرے پہ تیرے پیار کا الزام لکھا ہے قتیل اک خوبصورت بت ہے، میں جس کا پجاری ہوں میرے مذہب کے خانے میں مگر اسلام لکھا ہے

Ye kaisa khanjar sa mere pehloo main lehza lehza utar raha hay

یہ کیسا خنجر سا میرے پہلو میں لحظہ لحظہ اُتر رہاہے  کہ دل بھی چنگیزی ءِ غمِ جاں کو جیسے تسلم کر رہا ہے  یہ کونسی عمرِ نوح بخشی گئی ہے مجھ کو کہ عہدِ نو میں  گمان اِک ایک پل پہ جیسے صدی صدی کا گزر رہا ہے  لدا پھُندا ہے ہر ایک ساعت اِسی سے آنگن دل و نظر کا  یہی تمّنا کا اک شجر ہے چمن میں جو بارور رہا ہے  دل و نظر کی خموشیوں میں چھنکتے قدموں یہ کون آیا  کہ مثلِ مہتاب نطق میرا، لبوں سے میرے اُبھر رہا ہے  یہ زندگی ہے کہ انتشارِ خرام، ابرِ رواں کا ماجد  یہ کیسا منظر نگاہ میں ہے کہ لحظہ لحظہ بکھر رہا ہے