اجبنی شہر کے اجنبی راستے میرے تنہائی پر مسکراتے رہے میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے زہر ملتا رہا زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے سخت حالات کے تیز طوفان میں گھر گیا تھا ہمارا جنوں وفا ہم چراغ تمنا جلاتے رہے وہ چراغ تمنا بجھاتے رہے
اے حُسنِ بے مثال تُجھے کیا مثال دُوں لے آئینہ سنبھال تُجھے کیا مثال دُوں تُو رنگِ بے پناہ تُو سر چشمۂِ خیال میں زرد اور نڈھال تُجھے کیا مثال دُوں Ay Husn-e-Be-Misaal , Tujhe Kia Misaal Doon Lay Aaeina Sanbhaal , Tujhe Kia Misaal Doon Tu Rang-e-Be-Panah, Tu Sar Chashma-e-Khayal Mein Zard Or Nidhaal, Tujhe Kia Misaal Doon
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں وہی طائروں کے جھُرمَٹ جو ہَوا میں جھُولتے تھے وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی ہمِیں قتل ہو رہے ہیں، ہمِیں قتل کر رہے ہیں عبیداللہ علیم
جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند زلفِ شب رنگ کے صد راہوں میں میں نے دیکھا ہے طلسمات کا چاند رس کہیں روپ کہیں رنگ کہیں ایک جادو ہے ملاقات کا چاند ناصر کاظمی
زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں، وہ لوگ آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا احمد فراز
تھی گر آنے میں مصلحت حائل یاد آنا کوئی ضروری تھا مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا اور ایسے اہم مذاق کے بعد رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا جون ایلیا
لاکھ گِرد اپنے حفاظت کی لکیریں کھینچو ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی Laakh Gird Apne Hifazat Ki Lakeerein Kheencho Aik Bhi In Mein Nahi Maa Ki Duaaon Jaisi...
اَللہ اَللہ جمال اُن کا ہے حُسن ، کومل کمال اُن کا ہے شَہد ، بادَل ، صراحی ، جھیل ، کنول جو بھی اَچھا ہے مال اُن کا ہے دِل میں گو کہ خیال لاکھوں ہیں سب سے اُونچا خیال اُن کا ہے اُن کا اِک بال بھی گو میرا نہیں پر مرا بال بال اُن کا ہے آخری سال میرا یہ ہو گا سولہواں چونکہ سال اُن کا ہے دِل ، جگر ، جاں ہے میری اُن کے پاس میرے پاس اِک رُومال اُن کا ہے آگ بھڑکاتا ہے تجسس کی پردہ ’’دَرپردہ‘‘ جال اُن کا ہے دوستو! بن مُبالغے کے سنو آفتاب ایک خال اُن کا ہے وہ اَداؤں کے پیر و مرشِد ہیں منتظِر ہر غزال اُن کا ہے حُسنِ بندش کی اَوج سیکھو قیس شَہر بھر یرغمال اُن کا ہے
دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے، تکلیف زرا فرما دینا اے دوست کسی مے خانے سے کچھ زیست کا پانی لا دینا طوفان حوادث سے پیارے کیوں اتنا پریشاں ہوتا ہے آثار اگر اچھے نہ ہوئے اک ساغر مے چھلکا دینا ظلمات کے جھرمٹ ویسے تو بجلی کی چمک سے ڈرتے ہیں پر بات اگر کچھ بڑھ جائے تاروں سے سبو ٹکرا دینا ہم حشر میں آتے تو ان کی تشہیر کا باعث ہوجاتے تشہیر سے بچنے والوں کو، یہ بات زرا سمجھا دینا میں پیرہن ہستی میں بہت عریاں سا دکھائی دیتا ہوں اے موت مری عریانی کو ملبوس عدم پہنا دینا عبدالحمید عدم
خوشبوؤں سے کلام مت کرنا شہر میں دیکھ شام مت کرنا تتلیاں، پھول، خو اب، خوشبو تم اب کبٍھی میرے نام مت کرنا Khushbuon Se Kalaam Mat Karna Shehar Men Dekh Shaam Mat Karna Titliyaan, Phool, Khuwab, Khushbu Tum Ab Kabhi Mere Naam Mat Karna
حال دل جس نے سنا گریہ کیا ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا پھر کسی جان وفا کی یاد نے اشک بے مقدور کو دریا کیا تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے ابر رسا اک رات بھر برسا کیا دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی کام ساون کا کیا اچھا کیا آپ کے الطاف کا چرچا کیا ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا ابن انشاء
ٹھہرے پانی کو وہی ریت ’پرانی دےدے میرے مولا میرے دریا کو روانی دےدے آج کے دن کریں تجدیدِ وفا دھرتی سے پھر وہی صبح وہی شام سہانی دےدے تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر ’اٹھا ہے میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دےدے وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے ’اس کی خوشبو ہی بطور اک نشانی دےدے تپتے صحراؤں پہ ہو ’لطف و کرم کی بارش خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دےدے دیدہ و دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں وہی چہرہ ،وہی آنکھیں وہ جوانی دےدے جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیں میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دےدے حسن رضوی
دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا حاکم خود اپنے عہد حکومت میں مر گیا زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا اس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا
ھم نے سوچ رکھا ہے چاہے دل کی ہر خواہش زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہ جائے چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جایں اور بے مقدر ھم اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جایں تم سے کچھ نہیں کہنا کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے اور اب گلابوں پر نیند والی آنکھوں پر نرم خو سے خوابوں پر کیوں عذاب ٹوٹے ہیں تم سے کچھ نہیں کہنا گھر گئے ہیں راتوں میں بے لباس باتوں میں اس طرح کی راتوں میں کب چراغ جلتے ھیں کب عذاب ٹلتے ہیں اب تو ان عذابوں سے بچ کےبھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں ھم نے سوچ رکھا ہےتم سے کچھ نہیں کہنا
جو رعنائی نگاہوں کے لیے سامانِ جلوہ ہے لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری لوگ مر جائیں بلا سے تیری کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن کسی محرومِ نوا سے تیری اے میرے ابرِ گریزان کب تک راہ تکتے رہیں پیاسے تیرے تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘ وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری
مے کشو، خلق سے کام لینا میرا ساغر زرا تھام لینا اب یہی ہے ہماری صبوحی اشک پینا ترا نام لینا چل، چلا چل، مسافی چلا چل! چل کے منزل پہ آرام لینا کوئی بانکی سی تہمت اٹھانا کوئی نازک سا الزام لینا آج اگر وہ عدم آ ہی جائیں! بے تکلف انہیں تھام لینا
آج پھر تم نے میرے دل میں جگایا ہے وہ خواب میں نے جس خواب کو رو رو کے سُلایا تھا ابھی کیا ملا تم کو انہیں پھر سے فروزاں کر کے میں نے دہکے ہوئے شعلوں کو بجُھایا تھا ابھی میں نے کیا کچھ نہیں سوچا تھا کہ جان غزل کہ میں اس شعر کو چاہوں گا، پوجوں گا اپنی ترسی ہوئی آغوش میں تارے بھر کے قصہ مہ تاب تو کیا عرش کو بھی چُھو لوں گا تم نے تب وقت کو ہر زخم کا مرہم سمجھا اور ناسور میرے جدل میں چمکتے بھی رہے لذت تشنہ لبی بھی مجھے شیشوں نے نہ دی محفل عام میں تا دیر چھلکتے بھی رہے اور اب جب نہ کوئی درد نہ حسرت نہ کسک اک لرزتی ہوئی لو کو تہِ داماں نہ کرو تیرگی اور بھی بڑھ جائے گی ویرانے کی میری اُجڑی ہوئی دنیا میں چراغاں نہ کرو
~~~ متقی ~~~ وہ اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہ رہا تھا - " میں جانتا ہوں اسلم ساجد تمہارا اچھا دوست ہے - لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھاتا - وہ نہایت بدتمیز جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے - ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے - کیا وہ نہیں جانتا کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے - مجھے دیکھو میں تو کسی کی برائی نہیں کرتا از ڈاکٹر اشفاق احمد ایک زخم اور سہی
جانے اب کس دیس ملیں گے اونچی ذاتوں والے لوگ نیک نگاہوں سچے جذبوں کی سوغاتوں والے لوگ پیاس کے صحراؤں میں دھوپ پہن کر پلتے بنجارو پلکوں اوٹ تلاش کرو ، بوجھل برساتوں والے لوگ وقت کی اڑتی دھول میں اپنے نقش گنوائے پھرتے ہیں رم جھم صبحوں ،روشن شاموں ، ریشم راتوں والے لوگ ایک بھکارن ڈھونڈ رہی تھی رات کو جھوٹے چہروں میں اجلے لفظوں ، سچی باتوں کی خیراتوں والے لوگ آنے والی روگ رتوں کا پرسہ دیں ہر لڑکی کو شہنائی کا سرد سمجھہ لیں گر باراتوں والے لوگ ؟ پتھر کوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس ملے محسن روز دعائیں مانگیں زخمی ہاتھوں والے لوگ ...!!
دیکھنا، جذبِ محبت کا اثر، آج کی رات میرے شانے پہ ہے اُس شوخ کا سر آج کی رات اور کیا چاہیے اب اے دلِ مجروح تجھے! اس نے دیکھا تو بہ اندازِ دگر آج کی رات اسرار الحق مجاز
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں تعارف روگ بن جائے تو ا س کا بھولنا بہتر تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ناممکن ہو اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ساحر لدھیانوی
بنا گلاب تو کانٹے چُبھا گیا اِک شخص ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اِک شخص پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص محبّتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اِک شخص محبّتوں نے کسے کی بھُلا رکھا تھا اُسے ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اِک شخص عبیداللہ علیم
ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کوئی دانشمند مضمون نگاری کے لئے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا - اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تو اسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا -وہ متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے - یہ جاننے کے لئے وہ تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا -وہ نزدیک پہنچا ت و دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے - نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا - وہ ساحل پر جھکتا ، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا دانش مند اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں پوچھا ، " صبح بہ خیر ! یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ "نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا " ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں " میں سمجھا نہیں - تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو ؟ سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں - میں نے انھیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پ...
بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی سہے ہیں اُس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی جُدائیوں کی خلش اُس نے بھی ظاہر نہ کی چُھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی دئیے بُجھا کہ سرِ شام سو گیـــا تھا وہ بِتائی سو کہ شبِِ مہتاب میں نے بھی یہی نہیں کہ اس نے مجھے دردِ ہجر دیا جُدائیوں کا دیـــا ہے جواب میں نے بھی کسی نے خون میں تر چُوڑیاں جو بھیجھی ہیں لکھی ہے خونِ جگر سے کتاب میں نے بھی خزاں کا وار بھی کارگر تھا دل پر مگر بہت بچا کر رکھا یہ گُلاب میں نے بھی
اپنے احساس کے سب رنگ اتر جانے دو میری امید میرے خواب بکھر جانے دو جن کے آنے کا بہت شور ہوا تھا ہر سو انہی لمحوں کو چپ چاپ گزر جانے دو میری بربادی کا الزام نہ آئے تم پر میرے حالات کو کچھ اور بگڑ جانے دو
اُداس لوگوں سے پیار کرنا کوئی تو سیکھے ۔۔ سفید لمحوں میں رنگ بھرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔۔ کوئی دیکھائے محبتوں کے سراب مجھکو ۔ ۔ میری نگاہوں سے بات کرنا کوئی تو سیکھے ،۔ کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام لے کر اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پیامبر کوئی امام ِزماں ہی آئے اسیر ِذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے ۔ ۔ ۔
خواب نگر ہے آنکھیں کھولے دیکھ رہا ہوں اُس کو اپنی جانب آتے دیکھ رہا ہوں کس کی آہٹ قریہ قریہ پھیل رہی ہے دیواروں کے رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں کون مِرے جادو سے بچ کر جا سکتا ہے! آئینہ ہوں، سب کے چہرے دیکھ رہا ہوں دروازے پر تیز ہواؤں کا پہرا ہے گھر کے اندر چُپ کے سائے دیکھ رہا ہوں جیسے میرا چہرا میرے دُشمن کا ہو آئینے میں خود کو ایسے دیکھ رہا ہوں منظر منظر ویرانی نے جال تنے ہیں گلشن گلشن بِکھرے پتے دیکھ رہا ہوں منزل منزل ہَول میں ڈُوبی آوازیں ہیں رستہ رستہ خوف کے پہرے دیکھ رہا ہوں شہرِ سنگدلاں میں امجد ہر رستے پر آوازوں کے پتھر چلتے دیکھ رہا ہوں امجد اسلام امجد
’تُجھے اس قدر ہیں شکایتیں، کبھی سُن لے میری حکایتیں۔ تُجھے گر نہ کوئی ملال ھو، میں بھی ایک تُجھ سے گلہ کروں؟ نہیں اور کُچھ بھی جواب اب میرے پاس تیرے سوال کا۔ تُو کرے گا کیسے یقیں میرا، مُجھے تو بتا دے میں کیا کروں؟ یہ جو بھولنے کا سوال ھے، میری جان یہ بھی کمال ھے۔ تُو نمازِ عشق ھے جانِ جاں، تُجھے رات و دن میں ادا کروں۔ تیرا پیار تیری محبتیں، میری زندگی کی عبادتیں۔ جو ھو جسم و جاں میں رواں دواں، اُسے کیسے خود سے جُدا کروں؟ تُو ھے دل میں، تُو ھی نظر میں ھے، تُو ھے شام تُو ھی سحر میں ھے۔ جو نجات چاھوں حیات سے، تُجھے بھولنے کی دعا کروں۔‘‘
دو سیانے آدمی دو گھوڑے خریدتے ہیں دونوں نے سوچا کہ کیوں نہ گھوڑوں پر نشانی لگا لی جائے تا کہ یہ پتا چل سکے کہ تیرا کونسا ہے اور میرا کونسا ہے۔ پہلے نے ایسا کیا کہ رات کو اپنے گھوڑے کی دُم کاٹ لی۔ جب صبح اُٹھا تو دوسرے گھوڑے کی بھی دُم کٹی ہوئی تھی۔ پریشان ہو کر اگلی رات اُس نے اپنے گھوڑے کا دایاں کان کاٹ لیا۔ جب اُس صبح اٹھا تو دوسرے گھوڑے کا بھی دایاں کان نہیں تھا۔ پھر پریشان ہو کر گھوڑے کا بایاں کان بھی کٹ دیا صبح دیکھا تو پھر مایوس ہوا کہ دوسرے کا بایاں کان بھی نہیں تھا دونوں نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ کیوں نہ گھوڑوں کی پیمائش کی جائے بات طے ہو گئی اگلے دن دونوں نے گھوڑوں کی پیمائش کی اور نتیجہ یہ نکلا: کہ جو سفید گھوڑا ہے وہ کالے سے ایک انچ بڑا ہے
شاعرو ! درد لکھتے رھو" روح کو سرد لکھتے رھو شاعرو! درد لکھتے رھو آنسوؤں کو ستارہ لکھو خواب کو اک اشارہ لکھو عشق میں سب گوارہ لکھو دل کی قسمت خسارہ لکھو رتجگے استعارہ لکھو وقت کیسے گزارا لکھو رات کو بے سہارا لکھو کس نے کس کو پکارا لکھو چاند ھے زرد لکھتے رھو شاعرو ! درد لکھتے رھو
::::: انتظار :::::: گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری اداس آنکھوں تری دید کو ترستی ہیں بہارِ حسن ، پہ پابندیِ جفا کب تک؟ یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟ قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں غلط تھا دعویِ صبر و شکیب، آ جاؤ قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں فیض احمد فیض
زندگی کے جوازتلاش نہیں کیے جاتے صرف زندہ رہا جاتا ہے زندگی گذارتے چلے جاؤ جواز مل جائے گا ۔ اگر آپ کو کسی طرف سے کوئی محبت نہ ملے تو مایوس نہ ہو ، آپ خود ہی کسی سے محبت کرو ۔ کوئی با وفا نہ ملے تو کسی بے وفا سے ہی سہی ۔ محبت کرنے والا زندگی کو جواز عطا فرماتا ہے زندگی نے آپ کو اپنا جواز نہیں دینا بلکہ آپ نے زندگی کو زندہ رہنے کے لیے جواز دینا ہے ۔ آپ کو انسان نظر نے آئے تو کسی پودے سے پیار کرو۔ اس کی پرورش کرو، اسے آندھیوں سے بچاؤ ، طوفانوں سے بچاؤ، وھوش و طیور سے بچاؤ، تیز دھوپ سے بچاؤ، زیادہ بارشون سے بچاؤ۔ اس کو پالو پروان۔ چڑھاؤ۔ پھل کھانے والے کوئی اور ہوں ، تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں ۔ کچھ نہیں تو یہی درخت کسی مسافر کو دو گھڑی سایا ہی عطا کرے گا۔ کچھ نہیں تو اس کی لکڑی کسی غریب کی سردی گذارنے کے کام آئے گی۔ آپ کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ آپ کو زندہ رہنے کا جواز اور ثواب مل جائے گا ۔اگر آپ کی نگاہ بلند ہونے سے قاصر ہے، تو اپنے پاؤں کے پاس دیکھو۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ کی توّجہ کی محتاج ہوگی۔ کچھ نہیں تو محبت کا مارا ہوا کتا ہی آپ کے لیے زندہ رہنے کا جواز مہیا کرے گا ۔ (ح...
کن لفظوں میں اتنی کڑوی، اتنی کسیلی بات لکھوں شہر کی میں تہذیب نبھاؤں، یا اپنے حالات لکھوں غم نہیں لکھوں کیا میں غم کو، جشن لکھوں کیا ماتم کو جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا اُن کو بارات لکھوں کیسے لکھوں میں چاند کے قصے، کیسے لکھوں میں پھول کی بات ریت اُڑائے گرم ہوا تو کیسے میں برسات لکھوں کس کس کی آنکھوں میں دیکھے میں نے زہر بجھے خنجر خود سے بھی جو میں نے چھپائے کیسے وہ صدمات لکھوں تخت کی خواہش، لُوٹ کی لالچ، کمزوروں پر ظلم کا شوق لیکن اُن کا فرمانا ہے میں اُن کو جذبات لکھوں قاتل بھی مقتول بھی دونوں نام خدا کا لیتے تھے کوئی خدا ہے تو وہ کہاں تھا، میری کیا اوقات لکھوں اپنی اپنی تاریکی کو لوگ اُجالا کہتے ہیں تاریکی کے نام لکھوں تو قومیں، فرقے، ذات لکھوں جانے یہ کیسا دور ہے جس میں یہ جرآت بھی مشکل ہے دن ہو اگر تو اُس کو لکھوں دن، رات اگر ہو رات لکھوں
تمہیں بھی خبر ہوگی کہ دریا پاس بہتے ہوں توپانی اچھا لگتا ہے کناروں پر جڑی مٹی سے پوچھو روگ چاہت کا کہ اس پانی کی چاہت میں کناروں سے اکھڑکر اجنبی دیسوں میں جانا کتنا مشکل ہے کنارا پھر نہیںملتا تمہیں بس اتنا لکھنا ہے یہاں جو بھی بچھڑ جائے دوبارہ پھر نہیںملتا
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں یہ ڈالر میں آئین کو تولتے ہیں یہ لہجہ میں سرائے کے بولتے ہیں ہے غارت گری اہل ایماں کا شیوہ بھلایا شیاطین نے قرآں کا شیوہ اٹھو نوجوانو! وطن کو بچاؤ! شراروں سے حد چمن کو بچاؤ ساغر صدیقی
لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں تو جفا کی میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں تو مجھے میں تجھے الزام دھرتا ہوں اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ ایک دوسرے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں محسن نقوی
مالکن :(خانسامہ سے) تم سے کتنی بار کہا ہے کہ صاحب کی نوکری ختم ہو گئی ہے اس لئے اب مرغی نہیں صرف دال پکے گی مگر تم مرغی اور دال دونوں پکا رہے ہو؟ خانساماں : بیگم صاحبہ! دال آپ کے لئے اور مرغی اپنے لئے پکار رہا ہوں نوکری صاحب کی ختم ہوئی ہے میری نہیں۔
کہیں عشق کی دیکھی ابتدا کہیں عشق کی دیکھی انتہا کہیں عشق سولی پی چڑھ گیا کہیں عشق کا نیزے پہ سر گیا کہیں عشق سیف خدا بنا کہیں عشق شیر خدا بنا کہیں عشق طور پے دیدار ہے کہیں عشق ذبح کو تیار ہے کہیں عشق آنکھوں کا نور ہے کہیں عشق کوہ طور ہے کہیں عشق تو ہی تو ہوا کہیں عشق الله ہو ہوا
ایک عورت گالف کھیل رہی تھی کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔ مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں کہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔ خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔ میری پہلے خواہش ہے کہ میں دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔ دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شو...
ذہن میرا جِلا کے رُخ پر ہے یہ دریچہ ہوا کے رُخ پر ہے تل محبت کا ا ک مرے دل میں اک مرے دلرُبا کے رُخ پر ہے حُسن ہے بھی اگر زمانے میں ایک اُس خوش نما کے رُخ پر ہے انور شعور
یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تـُـم سے ہــے خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے تمھارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب میری وجود کا سارا نظام ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے ہے کہاں بساط جہاں اور میں کمسن و نادان یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے . . . !
محبّت کیا ہوتی ہے? محبّت کیا ہوتی ہے ".....سلطان آدم ابھی شاہ پری کے اس انتہایی غیر متوقع سوال سے پیدا ہونے والی خاموشی کے سایوں میں سے اپنے لئے راستہ بنا نے کی کوشش کر ہی رہا تھا کے ایک پرسرار آواز کے ساتھ کھڑکی کے شیشے سے ٹکرانے والی ہوا گزیدہ ابابیل نے کمرے کی ہر شے کو یکدم اپنے احساس کی گرفت میں لے لیا - سلطان آدم، شاہ پری، گلدانو میں سجے پھول ، جنوبی دیوار پی لگی پینٹنگ میں سمندری طوفان میں گھری ہویی کشتی ، آتشدان میں سرگوشیاں کرتی آگ، سب کچھ ہی کھڑکی کے شیشے پر ابابیل کے بارش سے بھیگتے عکس کی رازداری کا حصہ بن گیا تھا. طوفان باد و باران میں "محبّت کیا ہوتی ہے" کے سوالیہ دھاگے میں الجھی ہویی زخمی ابابیل کو ایک ناقابل ے فراموش لمحے میں ڈھلتے ہوۓ محسوس کر کے وہ بولا " محبّت کسی طوفانی موسم میں ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے " یہی محبّت ہے " سلطان آدم نے ابابیل کی پر چھایوں میں شاہ پری کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی - فنا ہوجا نا- لمبی اڑان کے بعد اپنی طرف واپس لوٹ آنا اپنے آپ کو پہچان لینا- سفر کی انتہا پر مکمل آزادی اور پھر اپنے عکس ...
اللہ سے تعلق تو ایسے ہونا چاہئے جیسے ماں سے ہوتا ہے – تھک جاؤ تو اس کی گود میں سر رکھ دو – پریشانی ہو تو اس کی آغوش میں سر رکھ کر کہو مجھے تھپک ماں – تیری تھپک میں پتا نہیں کیا جادو ہے کے سارے دکھ دور ہوجاتے ہے – ممتاز مفتی کی کتاب تلاش سے اقتباس
کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو
ایسے امید کا بھرم ٹوٹا جیسے سب سے بڑا صنم ٹوٹا دل کی فطرت میں تھی لچک کتنی ٹوٹا سو بار پھر بھی کم ٹوٹا تیرے نزدیک میرا پیمانہ میرے نزدیک جام جم ٹوٹا دیر کا بھی حرم محافظ تھا دیر ثابت رہا حرم ٹوٹا شور ماتم ہے کیوں چمن میں بپا کیا؟ کہاں؟ کس گھڑی؟ عدم ٹوٹا عبدالحمید عدم